ممبئی: انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم ایک تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی پولیس گرفتار مشتبہ افراد کو تشدد سے ہلاک کرنے کے بعد ان کی موت کو خودکشی یا طبعی موت قرار دے دیتی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رپورٹ میں تنظیم کا کہنا تھا کہ حراست میں لیے جانے والے ملزمان کی ہلاکتوں کی بڑی وجہ گرفتاری کے بعد مقررہ طریقے کے تحت ملزمان کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے میں ہونے والی تاخیر ہے۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 2009 سے 2015 کے دوران بھارتی پولیس کی حراست میں 675 افراد ہلاک ہوئے جبکہ تنظیم کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ متاثرہ افراد کو بیلٹ اور جوتوں سے پیٹا جاتا تھا یا انہیں کلائی کے ذریعے لٹکا دیا جاتا تھا جو ان کی موت کی وجہ بنا۔

تفتیشی رپورٹ کی مصنف جے شری بجوریا کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ ہلاکتیں سامنے نہیں آتیں اور تشدد کرنے والے پولیس اہلکاروں کے ساتھی بھی ان پر پردہ ڈالے رہتے ہیں اس لیے انھیں ثابت کرنا مشکل کام ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کنہیا کمار پر پولیس حراست میں تشدد کا اعتراف

جے شری کے مطابق بھارت میں پولیس کے احتساب میں برتی جانے والی غفلت، دوران حراست ملزمان کی ہلاکتوں کا سبب ہے۔

تنظیم کی جانب سے پولیس کی حراست میں موجود 17 افراد کی ہلاکت کی تفتیش کی گئی جس میں یہ بات سامنے آئی کہ پولیس تمام کیسز میں حراست کے بعد طے شدہ طریقہ کار پر عمل کرنے میں ناکام رہی۔

طے شدہ طریقہ کار کے تحت گرفتار کیے جانے کے بعد مشتبہ افراد کا طبی معائنہ ہونا ضروری ہے تاکہ ڈاکٹر ان کے پہلے سے موجود زخموں کا اندازہ لگا سکے۔

تنظیم کے مطابق ہلاکت کے ایک معاملے پر ممبئی پولیس کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملزم پر تشدد اس لیے کیا کیونکہ وہ ایک ’خطرناک مجرم‘ تھا اور دوران تفتیش کچھ بھی اگلنے کو تیار نہ تھا۔

رپورٹ میں شامل آتمارام گورَو کے بیان کے مطابق تشدد کے بعد ملزم اس قدر کمزور ہوچکا تھا کہ جب وہ پانی پینے کے لیے اٹھا تو نقاہت کی وجہ سے کھڑکی کے نزدیک گرا جس سے اس کا نچلا جبڑا ٹوٹ گیا۔

ایک جانب پولیس ان اموات کو خودکشی یا طبعی وجوہات قرار دیتی ہے وہیں پوسٹ مارٹم رپورٹس میں ان ملزمان کی چوٹوں کی وجہ ان پر کیا جانے والا تشدد ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: ہندوستان: پولیس نے 8 مسلمان قیدی ہلاک کردیے

تنظیم کے مطابق 2010 سے 2015 کے درمیان دوران حراست ہونے والی اموات کے صرف ایک کیس پر پولیس کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا جو چوری کے الزام میں گرفتار ہونے والے 20 سالہ نوجوان کی موت تھی۔

نوجوان کے والد لیونارڈ ولدارس نے ایک انٹرویو میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم اس تنظیم کو بتایا کہ انہوں نے آخری بار اپریل 2014 میں اپنے گرفتار بیٹے کو دیکھا تھا جو زاروقطار روتے ہوئے ان سے کہہ رہا تھا کہ ’بچائیں، مجھے بچائیں، یہ مجھے رات بھر مارتے رہے ہیں، یہ مجھے مار ڈالیں گے‘۔

والد کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد میں نے اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا اور اگلے دن مجھے اس کی لاش ہی دیکھنے کو ملی‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں