اسلام آباد : حالیہ دنوں میں 10 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کے معاملے نے جہاں ’ملازموں کی حالت زار‘ سے پردہ اٹھایا ہے، تو دوسری جانب بچوں کے تحفظ کے حوالے سے وفاقی حکومت کے ناقص اقدامات کو بھی ظاہر کیا۔

بچوں پر استحصال کے کیسز کے حوالے سے کوئی آزاد ادارہ قائم ہونے کے بجائے ایسے کیسز سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کے پاس وزارت برائے انسانی حقوق کا نیشنل چائلڈ پروٹیکشن سینٹر (این سی پی سی) نامی واحد غیر مؤثر مرکز ہے۔

وزارت انسانی حقوق کے سینئر افسر نے ڈان کو بتایا کہ اس سینٹر میں بچیوں کے قیام کا کوئی انتظام موجود نہیں، جبکہ وزارتِ خصوصی تعلیم کا ایک ہاسٹل ہے، جس میں بھی زیادہ گجائش موجود نہیں، تشدد سے متاثرہ بچوں کو یہاں 2 یا 3 دن سے زیادہ نہیں رکھا جا سکتا۔

افسر نے بتایا کہ استحصال کی شکار چھوٹی لڑکیوں کو وومین کرائسز سینٹرز میں رکھا جاتا ہے، جو کہ ان کے لیے مناسب نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چائلڈ پروٹیکشن سینٹر نے بچوں کے لیے 35 کروڑ روپے کی لاگت کے رہائشی یونٹ کے قیام کی تجویز پیش کی تھی، جس پر اب تک عمل در آمد نہیں ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک بااختیار اور مؤثر کمیشن کی قانون سازی کا معاملہ بھی تعطل کا شکار ہے۔

شاید اسی وجہ سے پولیس نے مالکان کے ہاتھوں مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بننے والی بچی کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے 24 گھنٹے لگا دیے۔ چند دنوں پہلے سوشل میڈیا پر خبریں گردش کر رہی تھیں کہ حاضر سروس ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج اور ان کی زوجہ نے بچی کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا۔

10 سالہ ملازمہ طیبہ دو سال تک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج راجہ خرم علی خان کے ہاں ملازمت کرتی رہی۔

28 دسمبر کو اہل محلہ میں سے کسی نے راولپنڈی میں واقع چائلڈ پروٹیشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے دفتر کو فون پر طیبہ کی حالت زار کی اطلاع دی۔

چونکہ بیورو قانونی طور پر وفاقی دارالحکومت سے شکایات موصول نہیں کرسکتے اس لیے انہوں نے وزارت انسانی حقوق کے چائلڈ پروٹیکشن کے ڈائریکٹر کا نمبر فراہم کر دیا۔

تاہم انڈسٹریل ایریا پولیس کو مقدمہ درج کرنے میں پورے 24 گھنٹے لگے۔

پولیس کے تحویل میں لیے جانے سے قبل طیبہ ایک دن تک لاپتہ رہی، جس کے بعد طیبہ نے جج اور ان کی اہلیہ کی جانب سے کسی قسم کے تشدد کے الزام رد کر دیا تھا۔

پڑھیے: طیبہ انصاف کیلئے کس کے دروازے پر جائے؟

ذارئع کے مطابق جج کے اہل خانہ نے ہی بچی کو ایک دن گھر پر چھپا کر رکھا تھا اور پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے بچی کو ان کے خلاف بیان نہ دینے کی ہدایات کی تھیں۔

پولیس اور میڈیکو لیگل افسر نے پہلے تو یہ خیال ظاہر کیا کہ طیبہ سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہوئی تھی مگر بعد میں بچی نے اسٹنٹ کمشنر نشاء اشتیاق کو بیان دیا کہ جج اور ان کی اہلیہ نے جھاڑو گم ہو جانے پر اسے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور اسٹور روم میں قید رکھا۔

اس معاملے کو میڈیا نے بھی اٹھایا جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد انور خان کاسی نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار راجہ جواد عباس حسن نے انکوائری مکمل کر کے جسٹس کاسی کو جمع کروا چکے ہیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اس سے قبل 2013 میں اختیارات کے غلط استعمال کرنے پر انکوائری کا سامنا کرنا پڑا اور 8 ماہ کے لیے برطرف کر دیا گیا تھا، ذرائع کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ انتظامیہ نے 2013 کے برعکس اس انکوائری کے دوران انہیں برطرف کرنے کا حکم جاری نہیں کیا۔

چائلڈ پروٹیکشن بیورو اینڈ ویلفیئر بورڈ کی چیئر پرسن صبا صادق نے بھی واقعہ نوٹس لیا ہے اور روالپنڈی کے ضلعی افسر علی عابد نقوی کو اسلام آباد کے چائلڈ پروٹیکشن سیل کے ساتھ معاملے پر معاونت کی ہدایت کی۔

بیورو کے نمائندگان متاثرہ بچی سے ملاقات کرنا چاہتے تھے مگر چائلڈ پروٹیکشن سینٹر کے ڈائریکٹر کی جانب سے اس تک رسائی حاصل کرنے نہیں دی۔

علی عابد نقوی کے مطابق چائلڈ پروٹیکشن بیورو اینڈ ویلفیئر بورڈ کی چیئر پرسن صبا صادق نے بچی کے علاج، قانونی معاونت اور اس کے والدین کو تلاش کرنے کی پیشکش کی ہے۔

جب نیشنل چائلڈ پروٹیکشن سینٹر کے ڈائریکٹر یوسف شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بورڈ ایک صوبائی ادارہ ہے، جس کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے، تاہم طیبہ کے اہل خانہ کو ڈھونڈنے میں بیورو کی مدد درکار ہوگی۔

انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ بچیوں کے رہائش کا مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے طیبہ اس وقت شہید بینظیر بھٹو کرائسز سینٹر برائے خواتین میں قیام پذیر ہے، انہوں نے مزید کہا کہ جیسے ہی والدین کو تلاش کر لیا جائے گا ویسے ہی بچی کو ان کے حوالے کر دیا جائے گا۔

جہاں نیشنل چائلڈ پروٹیکشن سینٹر طیبہ کے والدین تک رسائی کا سوچ رہا ہے وہاں میڈیا پہلے ہی طیبہ کے والد کو تلاش کر چکی ہے۔

جڑانوالہ گاؤں کے رہائشی محمد اعظم نے بتایا کہ بیٹی کو دیکھنے کے لیے اسلام آباد جانے کے پیسے نہیں ہیں، مگر انہوں نے انصاف کا مطالبہ کیا اور مزید بتایا کہ طیبہ جب 8 برس کی تھی تب وہ اسے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے پاس چھوڑ آئے تھے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں یکم جنوری 2017 کو شائع ہوئی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Imran Jan 02, 2017 03:00pm
insaaf