اسلام آباد: ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج کے مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا۔

عدالت میں پیشی کے موقع پر بچی کے والد کا کہنا تھا کہ انھیں عدالت کی جانب سے ملزم جج اور ان کی اہلیہ کو ضمانت دینے پر کوئی 'اعتراض' نہیں۔

واضح رہے کہ جج راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کو ایک کمسن بچی کو گھر پر ملازم رکھنے، جھاڑو گم ہوجانے پر بچی کا ہاتھ جلانے، چمچ سے مارنے، اسٹور روم میں بند رکھنے اور خطرناک انجام کی دھمکیاں دینے کے الزامات پر انکوائری کا سامنا تھا اور ان کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ آئی نائن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف محمود خان نے 10 سالہ ملازمہ پر تشدد کے الزام میں ملوث حاضر سروس جج کی اہلیہ مسماة ماہین ظفر کی عبوری درخواست ضمانت کی سماعت کی۔

دوران سماعت 10 سالہ بچی کے والد ہونے کے دعویدار محمد اعظم ،والدہ، پھوپھی اور چچا کی طرف سے بیان حلفی جمع کرائے گئے۔

بیان حلفی میں تحریر کیا گیا کہ 'انھوں نے کسی دباؤ کے بغیر راضی نامہ کرلیا ہے اور وہ مقدمہ میں نامزد جج کو فی سبیل اللہ معاف کرتے ہیں، عدالت جج یا ان کی اہلیہ کو بری کرے یا ضمانت دے انھیں کوئی اعتراض نہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: ملازمہ پر تشدد کا معاملہ، 10سالہ کمسن کیلئے محفوظ مقام عدم دستیاب

بچی کے والد نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انھوں نے اپنے طور پر معاملے کی چھان بین کی ہے اور انھیں پتہ چلا ہے کہ یہ کیس جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف محمود خان نے کم سن بچی پر تشدد کرنے والی حاضر سروس جج کی اہلیہ ملزمہ ماہین ظفر کی عبوری درخواست ضمانت 30 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کرتے ہوئے علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت سے رجوع کرنے کا حکم دے دیا۔

یاد رہے کہ جج راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کو 10 سالہ ملازمہ کی جانب سے اسسٹنٹ کمشنر پوٹوہار نشاء اشتیاق کی موجودگی میں پولیس کے سامنے بیان ریکارڈ کرانے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

کمسن ملازمہ پر تشدد کا معاملہ اُس وقت منظرعام پر آیا تھا جب تشدد زدہ بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں۔

حاضر سروس جج سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

ابتدائی طور پر بچی نے پولیس کو بتایا تھا کہ وہ سیڑھیوں سے گری جس سے اس کی دائیں آنکھ پر چوٹ آئی، جبکہ ہاتھ پر موجود زخم سے متعلق اس کا کہنا تھا کہ وہ چائے گرنے سے جلا ہے۔

مزید دیکھیں: گھریلو ملازمہ پرتشدد کا مقدمہ،ایڈیشنل سیشن جج پر الزام

تاہم ایف آئی آر کے مطابق، کم سن ملازمہ کا کہنا تھا کہ وہ تقریباً 2 سال سے جج کے گھر میں رہ رہی ہے۔

بچی نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اسے گھر میں اکثر اوقات مارپیٹ کا نشانہ بنایا جاتا تھا، جبکہ حال ہی میں 'مانو باجی' نے اس کا ہاتھ جلتے ہوئے چولہے میں ڈال دیا تھا جس کے بعد جھاڑو گم ہوجانے پر اسے مارا پیٹا گیا۔

ملازمہ کا کہنا تھا کہ اس کے مالکان اکثر اوقات اسے رات بھر اسٹور روم میں بند کردیتے اور بھوکا رکھنے کے ساتھ مار پیٹ بھی کرتے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے میڈیکو لیگل آفیسر کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ 'دائیں آنکھ کے گرد سوجن اور نیل موجود ہے، جسم پر سوجن اور جلائے جانے کے نشانات موجود ہیں جبکہ چہرے کے دائیں طرف اور بائیں کان کے اوپر بھی چوٹ کا نشان ہے'۔

رپورٹ میں کھلے اور جلے ہوئے زخم کی موجودگی بھی سامنے آئی اور اس خیال کا اظہار کیا گیا تھا کہ ان زخموں پر پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن337 آئی اے اور 337 ایف آئی کے تحت مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

محمد آصف ملک Jan 03, 2017 04:42pm
ویلڈن جج صاب۔۔۔
Shahid Saeed Khan Jan 03, 2017 05:47pm
How can a person who had forgotten his daughter can come into picture and individually pardon the guilty judge? This person should have been dealt with strict action that how did he left her daughter in miserable condition and might have sold her to the judge...