ہندوستان کے شہر بنگلور میں سال نو کے موقع پر خواتین اور لڑکیوں کو ہراساں کرنے کے الزامات کو پولیس نے بےبنیاد ٹھہرا دیا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پولیس کمشنر پراوین سود کا کہنا تھا کہ ان واقعات کے کوئی بھی ثبوت یا کسی قسم کے شواہد نہیں ملے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس افسران نے 70 سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیو کا معائنہ کیا، جبکہ 6 افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔

تاہم پراوین سود کے مطابق ان افراد کو شہر کے کسی دوسرے حصے میں ہونے والے واقعہ کے باعث حراست میں لیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک عام شہری نے پولیس کو ایک ویڈیو دکھائی، جس پر اس کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ اس کے گھر کے قریب پیش آیا ہے،

مزید پڑھیں: 'خواتین پر حملے کی وجہ مغربی لباس'

اس ویڈیو میں موٹر سائیکل پر موجود دو لڑکوں نے ایک لڑکی کو سڑک پر روک کر ہراساں کیا۔

اس پر پراوین سود کا کہنا تھا کہ پولیس نے یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد فوری کاروائی کا آغاز کردیا ہے، تاہم ویڈیو میں موجود لڑکی کی شناخت ظاہر نہیں کی جائے گی، اس حوالے سے کیس بھی درجہ کیا جاچکا ہے۔

تاہم پراوین سود نے سال نو کے موقع پر ہراساں کیے جانے والے الزامات کے حوالے سے کہا کہ شہر میں ایسا کچھ نہیں ہوا، یہ واقع اچانک اس وقت پیش آیا جب 10 ہزار سے زیادہ لوگ نئے سال کا جشن منانے اکھٹے ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا جھوٹے الزامات لگانے کے باعث اس ویڈیو کو غلط انداز میں استعمال کررہی ہے، جبکہ بھگدڑ صرف اس وقت ہوئی جب پولیس نے لوگوں کو ہٹانے کی کوشش کی تھی۔

پراوین سود کے مطابق جب پولیس نے مجمعے کو سنبھالنے کے لیے انہیں روکنے کی کوشش کی تو لوگوں نے دوڑ لگادی، ہلچل مچنے کے باعث لوگ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے، اس دوران کئی افراد نے رونا بھی شروع کردیا، اور یہی وجہ ہے کہ 30 سیکنڈ کی غلط فہمی کو خواتین پر حملے کی شکل دے دی گئی، تاہم ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں