اسلام آباد: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کم سن بچی طیبہ پر تشدد کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے سیشن کورٹ کی بے ضابطہ کارروائی کی نشاندہی کی۔

چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) کو عدلیہ کی پابندیوں اور قانونی رعایت کے بغیر کیس کی تمام پہلوؤں سے تحقیق کے احکامات جاری کرتے ہوئے تفصیلی رپورٹ 10 روز میں جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

یاد رہے کہ 28 دسمبر کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج راجہ خرم علی خان کے اہل خانہ کے مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی 10 سالہ ملازمہ طیبہ کی برآمدگی کے بعد 29 دسمبر کو راجہ خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج کے وکیل راجہ ظہور حسن کے ذریعے راضی نامہ کرکے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا جبکہ راجہ خرم علی خان نے اپنے ساتھی جج راجہ آصف محمود کے ذریعے اپنی اہلیہ ماہین ظفر کی ضمانت قبل از گرفتاری بھی حاصل کرلی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ کو پاکستان سویٹ ہوم کی تحویل میں دینے کا حکم

3 جنوری کو مبینہ تشدد میں ملوث جج کے ایک اور ساتھی جج عطا ربانی نے اس حوالے سے کیس کی چند منٹ کی سماعت کے بعد بچی کو اس کے مبینہ والدین کی تحویل میں دے دیا تھا، واضح رہے کہ اس درخواست کے ذریعے کوئی بھی شخص عدالت کے سامنے غیرقانونی حراست کی شکایت کرسکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بدھ (11جنوری) کو کیس کی کارروائی میں ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالرؤف کا کہنا تھا کہ پولیس ریکارڈ کے مطابق راجہ ظہور حسن ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ خرم علی خان کا رشتےدار ہے جبکہ راجہ ظہور نے خود کو جج آصف محمود اور عطاء ربانی کے سامنے بچی کا وکیل ظاہر کیا۔

طیبہ کے والد محمد اعظم نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پنجاب کے رکن صوبائی اسمبلی عثمان خان کھرل ان کے گھر پہنچے اور پھر بچی کے والد، والدہ نصرت، پھوپھی اور چاچا کو اپنی گاڑی میں لے کر برما ٹاؤن، اسلام آباد میں واقع ایک گھر میں لے گئے جہاں راجہ ظہور نے طیبہ کے والد سے کہا کہ اگر اسے اپنی بیٹی واپس چاہیئے تو وہ اسٹیمپ پیپر پر انگوٹھا لگادے۔

بچی کے والد کے مطابق اس نے کاغذ پر انگوٹھا لگادیئے تاہم وہ نہیں جانتا کہ اس کاغذ کس چیز کے تھے کیونکہ وہ ان پڑھ ہے۔

بچی کے والد محمد اعظم کا کہنا تھا اس کے بعد وہ سیشن کورٹ گئے جہاں طیبہ کو ان کے حوالے کردیا گیا، بعد ازاں راجہ ظہور ایک بار پھر طیبہ اور اس کے والدین کو برما ٹاؤن لے گیا جہاں ان لوگوں نے چند روز قیام کیا۔

مزید پڑھیں: ملازمہ پر تشدد: بچی کے والد نے جج کو 'معاف' کردیا

طیبہ کے والد نے بتایا کہ 14 اگست 2016 کو انھوں نے ملازمت کی خاطر طیبہ کو اپنی پڑوسن نادرہ کے حوالے کیا، جس نے انھیں بتایا تھا کہ طیبہ کو فیصل آباد کے اندر ہی ملازمت دی جائے گی جبکہ 3 ہزار ماہانہ تنخواہ اور 18 ہزار روپے ایڈوانس بھی دیئے گئے تھے۔

محمد اعظم کے مطابق اس کے بعد ان کی طیبہ سے ایک یا دو بار بات ہوئی اور پھر وہ طیبہ سے اس وقت ہی مل سکے جب راجہ ظہور نے واقعے کے بعد طیبہ کو گھر والوں کے حوالے کیا۔

دوسری جانب طیبہ کی برآمدگی تک راجہ ظہور پولیس کی حراست میں رہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈی آئی جی اپریشنز کاشف اسلم کو ہدایت دی کہ وہ راجہ ظہور سے متعلق تحقیقات کریں کیونکہ راجہ ظہور ہی نے کیس میں اہم کردار ادا کیا۔

انڈسٹریل ایریا کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) نے عدالت کو بتایا کہ انہیں کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کی اطلاع ملی تھی جس کے بعد انہوں نے بچی کو برآمد کیا اور وومن کرائسز سینٹر منتقل کیا۔

ایس ایچ او کا مزید بتانا تھا کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشنز جج آصف محمود نے 3 جنوری کو انہیں کیس ریکارڈ کے ہمراہ عدالت طلب کیا اور جب وہ عدالت کے سامنے حاضر ہوئے تو جج نے بتایا کہ مبینہ تشدد کے الزام میں ملوث جج کی اہلیہ ماہین ظفر کو پہلے ہی ضمانت جاری کی جاچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ کے 'والدین' کی شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم

جج عطاء ربانی کی جانب سے بچی کی جلد بازی میں اس کے والدین کے حوالے کرنے پر بھی چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کیا اور ڈی آئی جی کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا۔

جس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے طیبہ کو پاکستان سوئیٹ ہوم کے حوالے کردیا۔

سماعت کے دوران ایک وکیل نے روسٹرم میں پہنچ کر طیبہ کے والدین ہونے کے دعویدار افراد سے سختی سے نمٹنے کا مطالبہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد صرف مالی فائدے کے لیے بچی کی حوالگی چاہتے ہیں، تاہم بچی کی والدہ ہونے کی دعویدار ایک خاتون کو جب کورٹ میں پیش ہونے کا کہا گیا تو اس نے اپنا دعویٰ واپس لے لیا۔

کورٹ کیس کی دوبارہ سماعت 18 جنوری کو کرے گا۔

طیبہ تشدد کیس—کب کیا ہوا؟

کمسن ملازمہ پر تشدد کا معاملہ اُس وقت منظرعام پر آیا تھا جب تشدد زدہ بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج راجہ خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔

مزید دیکھیں: گھریلو ملازمہ پرتشدد کا مقدمہ،ایڈیشنل سیشن جج پر الزام

عدالت میں پیشی کے موقع پر بچی کے مبینہ والد کا کہنا تھا کہ انہیں عدالت کی جانب سے ملزم جج اور ان کی اہلیہ کو ضمانت دینے پر کوئی 'اعتراض' نہیں۔

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی اور اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں