کراچی: امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے 1940 سے 1990 کے درمیان مرتب کی جانے والی خفیہ دستاویزات کو شائع کردیا گیا ہے جس میں پاکستان کے جوہری صلاحیت کے حامل ہونے اور ضیاء الحق کے دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے سمیت دیگر معاملات کی تفصیلات موجود ہیں۔

سی آئی اے کی جانب سے رواں ماہ کے آغاز ایک کروڑ 30 لاکھ صفات پر مشتمل دستاویزات کی ڈیجیٹل ریلیز (اشاعت) نے عالمی دنیا کی دلچسپی میں اضافہ کردیا ہے۔

امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق مذکورہ شائع کی جانے والی ان خفیہ دستاویزات میں یو ایف اوز اور اسٹارگیٹ منصوبوں کا غلبہ ہے، تاہم انڈین میڈیا نے ان خفیہ دستاویزات میں دریافت کیا ہے کہ سی آئی اے کس طرح ایک روحانی پیشوا ساتھیا سائیں بابا کو دنیا میں نئے مذہب کا آغاز سمجھتی تھی۔

مضحکہ خیز طور پر 1971 کے انڈیا کے حوالے سے دستاویزات میں ایک عنوان شامل کیا گیا ہے جسے 'نیشنل انٹیلی جنس سروے' کا نام دیا گیا، اس میں ملک کے قومی کرداروں کو ان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے کہ 'خوف کو کم کرنے کیلئے جو شاید کم ہوسکتا ہے تاہم بیشتر بھارتی دفاعی — حساس اور جذباتی — ہیں اور وہ ظاہری طور پر بہت جارہانہ ہیں جو کہ تکبر کی حد تک ہے'۔

سی آئی اے کی رپورٹ کے مذکورہ پیراگراف کے مطابق 'بھارتیوں کے پاس صلاحیت اور آسانی ہے تاہم ان کے پاس فوری احساس نہیں ہے۔۔۔۔۔یہ نہیں ہے کہ بھارتی رہنما درست کام کرنے کیلئے بے فکر یا تیار نہیں، لیکن ان کی جانب سے ظاہر کیا جانے والا آرام دہ نقطہ نظر غیر بھارتیوں کیلئے بھی اشتعال کا باعث ہے'۔

اگر ان خفیہ دستاویزات میں لفظ 'پاکستان' کو تلاش کیا جائے تو 1233 مقامات پر اس کی نشاندہی ہوتی ہے، جن میں اخبارات کی کلپنگ اور فوج، ٹیلی گرامس اور جغرافیہ پر ملک کے پروفائلز شامل ہیں۔

خفیہ دستاویزات میں پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے ماضی میں ہونے والے تاریخی واقعات کے پس منظر پر سی آئی اے افسران کے انکشافات بھی شامل ہیں: جن میں بھارت اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات، پاکستان کے جوہری پروگرام میں پیش رفت، ضیاء الحق کے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے اور دیگر معاملات موجود ہیں۔

یہ دلچسپ بات ہے کہ بغیر کسی تاریخ کا تعین کیے سی آئی اے انٹیل رپورٹ پاک امریکا تعلقات کو بھارت اور سوویت یونین (موجودہ روس) کے درمیان تعلقات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ 'اقوام متحدہ میں شمالی افریقہ اور کشمیر کے حوالے سے امریکا کے واضح موقف کے باوجود پاکستان میں مغرب نواز افکار جاری رہنے کے امکانات ہیں'۔

مذکورہ دستاویزات میں واضح الفاظ میں لکھی گئی ایک اہم تحریر کے مطابق 'پاکستان کا مغرب نواز ہونا اس کی جانب سے انڈیا اور روس کے درمیان تعلقات میں اضافے کے خدشے کے پیش نظر ہے نا کہ سرمایہ دارانہ نظام یا عیسائی تہذیب کے ساتھ بنیادی ہمدردی کیلئے، یہ مثبت سے زیادہ منفی ہے'۔

ہاتھ سے لکھی ایک اور تحریر کے مطابق 'پاکستان مغرب کے ساتھ کھلے دل سے اتحاد قائم نہیں کرنا چاہتا سوائے یہ کہ وہ بدلے میں مناسب فوائد حاصل کرے'۔

اس کے علاوہ دستاویزات میں ایران میں کمیونسٹ کنٹرول پر پاکستان کے ممکنہ رد عمل کے حوالے سے یہ بھی تحریر موجود ہے کہ 'کیا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ایران پر کمیونسٹ کے قابض ہوجانے سے پاکستان کیلئے خطرات میں اضافہ ہوجائے گا'۔

اس کے علاوہ دستاویزات میں پاکستان کے حوالے سے شامل انتہائی اہم تفصیلات میں امریکی جاسوس فرانسس گرے پاور کا ذکر بھی موجود ہے جسے پشاور ائیر بیس پر گرفتاری سے قبل یو ٹو طیارے کو اڑان بھرنے کا کہا گیا تھا۔

افشاں کی جانے والی خفیہ دستاویزات اس سے قبل صرف میری لینڈ کے کالج پارک کے نیشنل آرکائیو میں عوام الناس کیلئے موجود تھی، جسے وہ کام کے اوقات کار میں 4 کمپیوٹرز دیکھ سکتے تھے۔

ماسکو سے تعلق رکھنے والے سیکیورٹی مشیر نے دستاویزات کے درست ہونے پر سوالات اٹھاتے ہوئے — جن میں سے بیشتر نظر ثانی شدہ ہیں— انھیں جعلی اور غلط معلومات قرار دیا ہے جبکہ سی آئی اے نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

سی آئی اے کے ترجمان نے سی این این کو بتایا کہ 'ان میں سے کوئی بھی بناوٹی نہیں ہے، یہ مکمل کہانی ہے، یہ غلط اور صحیح ہے'۔

یہ رپورٹ 26 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں