سی آئی اے کے حالیہ جاری کردہ خفیہ دستاویزات میں اس عام خیال کی تردید کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1971 کی جنگ میں دیگر کے ساتھ سرد جنگ کی سیاسی کشمکش کا عنصر بھی شامل تھا۔

دستاویزات اس کے برعکس حقیقت پیش کرتے ہیں کہ ماسکو ہندوستان کی جانب سے فوجی مداخلت کے "سیاہ اشاروں" پر خوش نہیں تھا۔

ایک بار پھر عام سوچ کے برعکس اندرا گاندھی بھارتی دائیں بازو کی طرف سے اٹھنے والی جنگی مطالبے کے خلاف تھیں اور سوویت یونین نے اندرا گاندھی کو جنگی جنونیوں کے مطالبوں کو رد کرنے پر زور ڈالا تھا۔

یہ خفیہ دستاویزات اوباما انتظامیہ کے آخری دنوں میں جاری ہوئے، جس میں یہ بھی درج ہے کہ جہاں بنگالی اکثریتی مشرقی پاکستان کے بحران کے ایک بڑے حصے کا ذمہ دار ذوالفقار علی بھٹو کو ٹھہرایا جاتا ہے، وہاں دراصل وہ مغربی پاکستانی فوج کا ایک حصہ تھا جس نے جنرل یحیٰ خان کو ڈھاکہ کے معاملے پر تباہ کن طریقے اپنانے پر اکسایا۔

صدر نکسن کو سی آئی اے کی جانب سے روزانہ بریفنگ دی جاتی تھی اسی طرح ایک دن سی آئی اے نے جولائی 1971 میں انہیں بتایا کہ "سوویت یونین (روس) ۔ ۔ ۔ بھارت کے (مشرقی پاکستان میں) فوجی مداخلت کے سیاہ اشاروں سے کافی پریشان دکھائی دیتی ہے اور 1965 کی طرح ایک بار پھر بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑنے سے روکنے کی خاطر ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔"

صدر کو دیے گئے بریفنگ نوٹ میں درج ہے کہ"9 جولائی (1971) کو روسی اخبار (ازویستیا) میں اعلٰی حکام کے تبصرے کے ذریعے بھارت اور پاکستان کو سختی کے ساتھ ماسکو نے اپنی خواہش کی یاد دہانی کروائی کہ برصغیر میں جنگ سے اجتناب ہونا چاہیے۔"

"اخبار کے مضمون میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ ماضی میں مقامی تنازع جلد ہی فوجی تنازع کا روپ لیتا رہا ہے جبکہ زور دیا گیا کہ نئی دہلی اور اسلام آباد کو مشرقی پاکستان پر اپنے مسائل کا کوئی پرامن حل ڈھونڈنا ہوگا۔ مضمون میں اندرا گاندھی کی جانب سے پاکستان سے جنگ کا مطالبہ کرنے والوں کو رد کرنے کے عمل کی خصوصی طور پر تائید کی گئی ہے۔"

کونسل جنرل نے بحران سے نمٹنے کے دیگر طریقے بھی پیش کیے، انہوں نے پناہ گزین مسئلے پر ماسکو کی مدد کا حوالہ دیا اور پاکستانیوں سے اپنی مخالفت کے دلائل پیش کیے، مگر انہوں نے اس بات پر شدید زور دیا کہ اگر بھارت جنگ چھیڑ دیتا ہے تو یہ انتہائی برا عمل ثابت ہوگا اور اس بات پر بھی زور دیا کہ اس جنگ کو روکنے کے لیے ممکنہ اقدامات کیے جائیں۔"

سی آئی اے نے صدر نکسن کو یہ بھی بتایا کہ پناہ گزینوں کا خیال رکھنے کے لیے بھارت کو مطلوبہ فنڈ سے کہیں کم بیرونی امداد مختص کی گئی ہے۔ صرف 6 ماہ کے لیے 65 لاکھ مہاجرین کا خیال رکھنے کے لیے مطلوبہ رقم 40 کروڑ ڈالر ہے جبکہ مختص کردہ رقم 12 کروڑ ڈالر ہے۔

یہ بھی بتایا گیا کہ مغربی بنگال میں 50 لاکھ مہاجرین کی موجودگی سے اشیاء خورد و نوش میں شدید اضافہ پیدا ہوا ہے اور مزدوری میں خاصی بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔

22 مارچ 1971 کو سی آئی اے نے صدر نکسن کو بتایا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی منسوخی سے ہو سکتا ہے کہ مشرقی پاکستانی شدید رد عمل پیش کریں، جو صدر یحیٰ خان کے لیے مسائل میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

یحیٰ خان نے سیاسی جماعتوں کو ایک مقام پر اکٹھا ہونے کی بھر پور کوشش کی مگر وہ مغربی پاکستانی کی کسی بھی ’بڑی جماعت‘ کو اس اجلاس میں لانے میں ناکام رہے۔

سی آئی اے نے نشاندہی کی کہ،"یحیٰ مشرقی پاکستانی کے شدید رد عمل کے خطرے سے آگاہ ہیں، لیکن غالباََانہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کا متبادل — مغربی پاکستان میں بدنظمی اور مغربی پاکستانی فوج کے اندر بے چینی — انتہائی بدتر ہوگا۔

مشرقی پاکستان کی آزادی کے ممکنہ طور پر اعلان کے بعد بھی مجیب نے اگر سخت گیر مؤقف رکھا —یحیٰ کو ایک دوسری مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے: آیا مشرقی پاکستان کو الگ ہونے دیا جائے یا پھر طاقت سے ملک کو جوڑ کر رکھنے کی کوشش کی جائے۔"

اس میں مزید درج ہے کہ "7 کروڑ مشرقی پاکستانیوں میں علیحدگی کے شدید جذبات، اور اس صوبے میں دستیاب فوج اور پولیس اہلکاروں کو مد نظر رکھیں تو دوسرا راستہ انتہائی مشکل ہوگا۔"


امریکی خفیہ ادارے (سی آئی اے) کی جانب سے آن لائن جاری کیے گئے ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات سے ڈان نے کچھ خاص حصوں کو لیا ہے، جو امریکی ویب سائٹ کے ریڈنگ روم میں قابل سرچ ایبل ڈیٹا بیس کا حصہ ہیں، اس سے قبل سی آئی اے کی ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات صرف میری لینڈ کے کالج پارک کے قومی آرکائیو میں عوام کے لیے دستیاب ہوتی تھیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 27 جنوری 2017 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں