دریائے راوی میں کشتی حادثہ، معاملہ پیچیدہ ہوگیا

04 فروری 2017
دریائے راوی میں کشتی گزشتہ روز ڈوبی تھی—فوٹو: ڈان نیوز
دریائے راوی میں کشتی گزشتہ روز ڈوبی تھی—فوٹو: ڈان نیوز

ننکانہ صاحب: صوبہ پنجاب میں دریائے راوی میں گزشتہ روز کشتی ڈوبنے کی وجہ سے 70 سے زائد افراد کو انتظامیہ کی جانب سے ریسکیو کرنے کے دعویٰ کرنے کے باوجود امدادی کارروائیاں جاری رکھنے کی وجہ سے معاملہ پیچیدہ ہوگیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز اوکاڑہ سے ننکانہ جانے والی کشتی دریائے راوی میں زیر تعمیر سیداں والا پل سے ٹکرانے کے بعد حادثے کا شکار ہوئی تھی۔

ڈپٹی کمشنر( ڈی سی) ننکانہ سائرہ عمر کا کہنا تھا کہ کشتی میں 70 سے زائد افراد سوار تھے، جن میں سے 30 کو فوری طور پر ریسکیو کرلیا گیا تھا، بعد ازاں حکومت نے دیگر تمام افراد کو بھی ریسکیو کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

انتظامیہ نے تمام افراد کو ریسکیو کرنے کا دعویٰ کیا تھا—فوٹو: ڈان نیوز
انتظامیہ نے تمام افراد کو ریسکیو کرنے کا دعویٰ کیا تھا—فوٹو: ڈان نیوز

ڈی سی ننکانہ نے 3 اور 4 فروری کی درمیانی شب ڈان نیوز کو بتایا کہ تمام افراد کو ریسکیو کرلیا گیا ہے اور ان کے پاس ایسے کوئی افراد نہیں آئے جنہوں نے اپنے پیاروں کے لاپتہ ہونے کا دعویٰ کیا ہو۔

تاہم 4 فروری کی صبح انتظامیہ کی جانب سے دریائے راوی میں دوبارہ امدادی سرگرمیاں شروع کرانے سے معاملہ پیچیدہ ہوگیا۔

ہفتہ 4 جنوری کو پاک فوج کے 70 جب کہ ریسکیو 1122 کے 80 سے زائد اہلکاروں نے دریائے راوی میں امدادی سرگرمیاں شروع کیں تو حادثے میں مزید افراد کے لاپتہ ہونے کا شبہ کیا جانے لگا، مگر انتظامیہ کے مطابق تمام افراد کو ریسکیو کرلیا گیا ہے۔

دعوے کے باوجود امدادی سرگرمیاں شروع کرنے سے معاملہ پیچیدہ ہوا—فوٹو: ڈان نیوز
دعوے کے باوجود امدادی سرگرمیاں شروع کرنے سے معاملہ پیچیدہ ہوا—فوٹو: ڈان نیوز

امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کے بعد 3 خاندان بھی سامنے آگئے، جنہوں نے اپنے خاندان کے افراد کے لاپتہ ہونے کا دعویٰ کیا۔

مبینہ طور پر لاپتہ ہونے افراد کے اہل خانہ کے مطابق تینوں خاندانوں کا ایک ایک فرد لاپتہ ہے۔

گزشتہ روز حادثے کے بعد عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ کشتی میں 150 سے زائد افراد سوار تھے، جب کہ انتظامیہ اس بات پر بضد تھی کہ کشتی میں 70 افراد سوار تھے۔

امدادی کارروائیوں کے لیے پاک فوج کے جوان بھی آئے—فوٹو: ڈان نیوز
امدادی کارروائیوں کے لیے پاک فوج کے جوان بھی آئے—فوٹو: ڈان نیوز

حادثے کے 24 گھنٹے بعد امدادی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کی وجہ سے معاملہ پیچیدہ ہوگیا، تاہم انتظامیہ کے مطابق حادثے کا کوئی بھی شخص لاپتہ نہیں، امدادی سرگرمیاں حفاظتی نقطہ نظر کے تحت کی جا رہی ہیں۔

دریائے راوی میں اس سے پہلے بھی اسی مقام پر 1997 میں ایک کشتی کے ساتھ حادثہ پیش آیا تھا، جس کے نتیجے میں 150 کے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

تین ایسے خاندان بھی سامنے آئے جنہوں نے اپنے افراد لاپتہ ہونے کا دعویٰ کیا—فوٹو: ڈان نیوز
تین ایسے خاندان بھی سامنے آئے جنہوں نے اپنے افراد لاپتہ ہونے کا دعویٰ کیا—فوٹو: ڈان نیوز

یاد رہے کہ ننکانہ میں دریائے راوی کے راستے ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پہنچنے کے لیے سفری سہولیات کے لیے کشتیوں کو استعمال کیا جاتا ہے، پنجاب کے علاوہ سندھ میں بھی ایسے کئی علاقے موجود ہیں جن کے درمیان دریا آنے کے باعث سفری سہولیات کے لیے کشتیوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔

ان کشتیوں میں بیک وقت لوگ، مویشی اور اشیاء خور و نوش سمیت دیگر کئی چیزیں رکھی جاتی ہیں اور یہ کشتیاں عام کشتیوں کے مقابلے میں زیادہ بڑی ہوتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں