کراچی: شہر کے مختلف علاقوں سے حاصل کیے گئے کم معروف مینوفیکچررز کی تیار کردہ کینڈیز (ٹافیاں) کے نمونوں پر کی جانے والی نئی تحقیق کے مطابق ان میں لیڈ اور نکل جیسی دھاتوں کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جو بچوں کی صحت کیلئے نقصان کا باعث ہے۔

کراچی میں فروخت ہونے والے مقامی طور پر تیار کردہ ٹافیاں کے حوالے سے کی جانے والے ریسرچ، جامع کراچی کے شعبہ ماحولیات کے ڈاکٹر عامر عالمگیر اور سیدہ عروج فاطمہ نے پروفیسر معظم علی خان کی زیر سرپرستی مکمل کی ہے۔

اس ریسرچ کیلئے شہر کے مختلف علاقوں سے 46 مختلف نمونے حاصل کیے گئے، جن میں حیدری، جوڑیا بازار، صدر، قائد آباد، لیاقت آباد، اور اورنگی ٹاؤن کے علاقے شامل ہیں، یہ وہ علاقے ہیں جہاںٹافیاں کی ہول سیل فروخت کی دکانیں موجود ہیں، ان نمونوں کے حصول کا مقصد ان میں لیڈ، نکل، کرومیم اور ائرن کی موجودگی کی جانچ کرنا تھا۔

واضح رہے کہ خوراک اور زراعت کی اورگنائزیشن (ایف اے او) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے کھانے کی اشیاء میں زیادہ سے زیادہ لیڈ کی مقدار 0.1 پی پی ایم، نکل کی مقدار 0.2 پی پی ایم اور ائرن کی مقدار 2 پی پی ایم سے 5 پی پی ایم تک کی حد مقرر کی گئی ہے تاہم خوراک میں کرومیم کی موجودگی کے حوالے بین الاقوامی طور پر کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔

تاہم ریسرچ کے مطابق ان ٹافیاں میں لیڈ کی مقدار 0.32 پی پی ایم سے 4.12 پی پی ایم، نکل کی مقدار 0.034 پی پی ایم سے 2.98 پی پی ایم، کرمیم کی مقدار 0.22 پی پی ایم اور ائرن کی مقدار 0.034 پی پی ایم سے 3.06 پی پی ایم تک موجود تھی۔

اس کے علاوہ وہ ٹافیاں، جن میں جڑی بوٹیوں یا مسالحے کے ذائقے شامل تھے، ان میں دھاتوں کی آلودگی زیادہ تھی۔

ریسرچ کے مطابق دھاتوں کی آلودگی کی وجہ غیر معیاری خام مال، خوارک کے مصنوعی رنگوں اور کھانے کے ذائقوں کا استعمال، مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والے برتن، پیکنگ کیلئے استعمال ہونے والے لفافوں پر موجود سیاحی اور غیر مناسب محفوظ کرنے کا طریقہ کار ہوسکتا ہے۔

جامع کراچی کے شعبہ ماحولیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عالمگیر کا کہنا تھا کہ 'ہمیں تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ سبز اور پیلے رنگ کی ٹافیاں میں لیڈ کی مقدار زیادہ تھی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آلودگی لفافوں سے آسکتی ہے، کچھ روغن جیسا کہ لیڈ کرومیٹ وغیرہ پر متعدد ممالک میں پابندی عائد ہے لیکن یہ ٹافیاں کی پیکنگ کیلئے بہت زیادہ استعمال ہورہا ہے'۔

ایک سوال کہ انھوں نے ان برانڈڈ کینڈیز (ٹافیاں) کو ہی نمونے کے طور پر کیوں چنا کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'کھانے کی اشیا کی تیاری اور فروخت کی جانچ کیلئے نظام موجود نہ ہونے کی وجہ سے برانڈڈ کینڈیز (ٹافیاں) میں بھی مضر صحت دھاتوں کی موجودگی کا امکان ہے لیکن ہماری توجہ کا مرکز غریب بچے تھے جو پہلے ہی کم غذائیت کا شکار ہوتے ہیں اور اس طرح کے اقدامات سے ان کی صحت کو مزید نقصان پہنچایا جارہا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ بچے ٹافیاں بہت زیادہ کھاتے ہیں اور اس طرح کی ٹافیاں کے مستقل استعمال سے ان کی صحت کو انتہائی نوعیت کے خطرات لاحق ہیں۔

لیڈ اور نکل کو ریڈیشن یا کارکوگینک ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'عالمی سطح پر لیڈ کے بچوں پر زہریلے اثرات کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جو ان کے اعضا کو بری طرح نقصان پہنچ سکتا ہے، خاص طور پر ان کے دماغ اور اعصابی نظام کو اس سے شدید خطرہ ہے'۔

ان کی جانب سے جس ڈیٹا کی جانب نشاندہی کی گئی ہے اس میں ٹافیاں میں دھاتوں کی موجودگی بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے۔

ان کے مشاہدے کے مطابق عام طور پر درمیان میں موجود کردار یا سپلائر ہول سیل مارکیٹس سے انتہائی سستے داموں میں ان غیر معروف یا ان برانڈڈ کینڈیز کی خریداری کرتے ہیں جو 0.35 پیسہ سے لے کر 2 روپے تک ہوتی ہے اور دکانوں پر ان کو 2 روپے سے 5 روپے کے درمیان بییچا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ 'ان میں سے کچھ مذکورہ ٹافیاں کو اسی صورت میں اپنے مطلوبہ لفافے میں فروخت کرتے ہیں تاہم کچھ لوگ ان کو پگلا کر اس میں مزید اجزاء، جیسے ذائقہ اور زہریلے کھانے کے رنگ شامل کرتے ہیں جو بیشتر ٹیکسٹائل کے فضلے سے حاصل کیے جاتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'دھاتی آلودگی کی کم مقدار بھی بچوں میں زہریلے اثرات مرتب کرسکتی ہے لیکن یہ زہریلی ٹافیاں کم آمدنی والے علاقوں، اسکولوں کے باہر اور مارکیٹس میں فروخت کی جاتی ہیں'۔

انھوں نے اس حوالے سے ایک وسیع اور منظم سروے کی تجویز بھی دی۔

کھانے کی اشیا کی جانچ کیلئے نگرانی کے نظام کی غیر موجودگی پر بات چیت کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر قیصر ساجد کا کہنا تھا کہ یہ خوراک اور صحت کے صوبائی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ مارکیٹس میں ملنے والی خوراک محفوظ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بدقسمتی سے، اس حوالے سے سندھ میں غفلت برتی جاتی ہے، پنجاب حکومت کے محکمہ خوراک نے حالیہ کچھ ماہ میں اس حوالے سے اہم اقدامات کرتے ہوئے غیر معیاری خوراک کی تیاری اور فروخت میں شامل افراد کے خلاف سخت کارروائیاں کی ہیں'۔

یہ رپورٹ 5 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں