اسلام آباد: 400 سینیئر بیوروکریٹس کی ترقیوں میں غیر معمولی تاخیر کے بعد آئندہ چند روز میں وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے جنرل سلیکشن بورڈ ( جی ایس بی) کی سفارشات پر غور کیے جانے کی امید ہے۔

آخری بار بیوروکریٹس کی ترقیاں مئی 2015 میں ہوئی تھیں، جب کہ جی ایس بی کی جانب سے سینیئر کی جگہ دوسرے افراد کو ترقی دینے کے خلاف افسران نے عدالت میں درخواست بھی دائر کر رکھی ہے، جس کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں آیا۔

ذرائع کے مطابق بیورو کریٹس کی ترقیوں سے متعلق سمری کئی دن قبل منظور ہونا تھی، مگر وزیر اعظم کے بیرونی ممالک کے دوروں اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی۔

سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سید طاہر شہباز نے اس بات کی تصدیق کی کہ وزیر اعظم کچھ دنوں میں بیوروکریٹس کی ترقیوں سے متعلق جی ایس بی کی سمری منظور کریں گے۔

انہوں نے سمری کی منظوری سے متعلق تاخیر کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے اس طرح کی سمریوں کی منظوری میں 30 سے 40 دن لگ جانا معمول کی بات ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سول سروس میں اصلاحات کی ضرورت

سابق سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ راجا حسن عباس کہتے ہیں 2006 میں وزیراعظم کی جانب سے دی گئی ہدایات کے بعد یہ لازم ہے کہ سال میں کم سے کم 2 بار جی ایس بی کا اجلاس منعقد ہو۔

ان کے مطابق اس ضمن میں کم سے کم تین جی ایس بی اجلاسوں میں ترقیوں کے معاملے پر بحث نہ کیے جانے کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔

ترقیوں میں بلاجواز تاخیر کے باعث کئی افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد ترقیاں دی گئیں۔

سپریم کورٹ نے 28 نومبر 2016 کو اہل افسران کو ترقیاں دینے کے لیے جی ایس بی کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی، جس کے بعد جی ایس بی نے دسمبر کے وسط میں 400 افسران کو گریڈ 19 سے اگلے گریڈ 20 میں ترقی دینے کی سفارش کی۔

تاہم وزیر اعظم آفس میں 2015 سے بیوروکریٹس کی ترقیوں کا ایک اور معاملہ لٹکا ہو اہے۔

ڈان نے ایسے کچھ افسران سے بات کی ہے جن کی ترقیوں کا معاملہ پائپ لائن میں ہے، انہوں نے وزیر اعظم آفس کی جانب سے تاخیر پر برہمی کا اظہار کیا۔

ترقیوں میں تاخیر سے متعلق معاملے پر بھی افسران کا رد عمل مختلف قسم کی قیاس آرائیوں کی صورت میں نکلا، جیسےسیکریٹریٹ گروپ کے ایک افسر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم آفس کے فیصلہ ساز ان ترقیوں سے خوش نہیں ہیں، وہ چاہتے ہیں جی ایس بی بورڈ ان ترقیوں کا دوربارہ جائزہ لے۔

مزید پڑھیں: بااثر بیوروکریٹس بہترین اپارٹمنٹس کے مالک بن گئے

تاہم کچھ افسران کا کہناتھا کہ وزیر اعظم ہاؤس آفس نے سیکیورٹی کلیئرنس کے لیے معاملہ انٹیلی جنس بیورو ( آئی بی) کو بھیج دیا ہے، جس وجہ سے اس میں کچھ تاخیر ہو رہی ہے۔

افسران کے مطابق حکام کے تذبذب کے شکار ہونے کی و جہ سے وہ اپنی ترقیوں کے لیے فکرمند ہونے کے باعث اپنے کام میں توجہ نہیں دے پا رہے، جس وجہ سے سرکاری کام متاثر ہو رہے ہیں۔

پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز ( پی اے ایس) کے افسر کا کہنا تھا کہ 13 ویں اور 14 ویں کامن بیچز کے 11 ملازمین کی ترقیاں ملتوی کردی گئی ہیں، جب کہ گریڈ 21 کے لیے 43 سیٹوں کی سفارش کی گئی تھی، مگر 15 ویں کامن بیچز کے وزیر اعظم ہاؤس آفس کے بعض بااثر افسران اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ حال ہی میں وزیر اعظم کے داماد ایم این اے (ر) کیپٹن محمد صفدر نے ایک توجہ دلاؤ نوٹس کے دوران وزیر اعظم ہاؤس آفس اور خصوصا سیکریٹری فواد حسین فواد کو گریڈ 20 اور اس سے زائد کے گریڈ کے افسران کی ترقیوں سے متعلق اپنی ذاتی خواہش کی بنیاد پر فیصلے کرنے پر تنقید کا انہیں نشانہ بنایا۔

یہ بھی پڑھیں: کیپٹن (ر) صفدر کی وزیر اعظم آفس اور بیوروکریٹس پر تنقید

انہوں نے تجویز دی کہ گریڈ 20 اور اس سے زائد گریڈ کے افسران کی ترقیوں کےلیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے، افسران کی ترقیوں کا فیصلہ ان کی اہلیت اور ٹریک ریکارڈ کی بنیاد پر کیا جانا چاہئیے۔

جی ایس بی بورڈ نے 13 ویں سے 20 ویں کامن بیچز سے 43 افسران کو گریڈ 21 میں ترقیاں دینے کی سفارش کی ہے۔

ایک اور افسر کا کہنا تھا کہ 13 ویں اور 14 ویں کامن بیچز کے 11 میں سے 5 افسران کے ترقیوں کے کیسز مئی 2015 سے ان کی ایمانداری کی وجہ سے ملتوی کردیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب بھی دیگر چار فیصد افسران چاہتے ہیں کہ ان بیچز کے افسران کی ترقیاں روک دی جائیں کیوں کہ ترقیوں کی صورت میں وہ جی ایس بی کے آئندہ اجلاس میں سینارٹی کی بنیاد پر مزید ترقی یعنی اگلے گریڈ 22 کے لیے اہل ہو جائیں گے۔

انہوں نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ 15 ویں کامن بیچز سے گریڈ 22 میں ترقیوں کے لیے افسران کا انتخاب نہیں کیا جاتا۔

افسر کے مطابق پولیس سروس آف پاکستان ( پی ایس پی) کے افسران جو ترقیوں کے منتظر ہیں ، وہ اپنی ترقیوں کے لیے 13 ویں اور 14 ویں کامن بیچز کے 11 افسران کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔


یہ خبر 7 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں