اسلام آباد: قومی اسمبلی میں اس وقت صورت حال انتہائی کشیدہ ہوگئی جب وفاقی کابینہ نے فاٹا اصلاحات کو اجلاس کے ایجنڈے سے نکال دیا، جس پر قبائلی اراکین اسمبلی نے پیکج کی منظوری کیلئے حمتی تاریخ دیتے ہوئے حکومت کو احتجاج کی دھمکی دے دی۔

اجلاس کے دوران دونوں جانب سے اراکین نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے جبکہ فاٹا کے اراکین اسمبلی نے قبائلی علاقے کو 'ایک اور کشمیر' بننے سے بچانے کی اپیل کی۔

کابینہ کے اجلاس کے فوری بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ایوان میں اراکین اسمبلی کی خدشات کا جواب دینے کیلئے آئے تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن جنید اکبر کی جانب سے کورم مکمل نہ ہونے کی نشاندہی پر وہ ایسا نہ کرسکے۔

ادھر باجوڑ سے تعلق رکھنے والے پاکستان مسلم لیگ نواز کے شہاب الدین خان نے احتجاج کے طور پر اپنے بازو اور منہ پر سیاہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں۔

انھوں نے اجلاس کے دوران بات نہیں کی اور حکومت کی جانب سے فاٹا اصلاحات کو کم ترجیح دیے جانے پر ایوان سے واک آؤٹ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ 'اگر میں حکومت میں ہوتا تو اس بات کی یقین دہانی کراتا کہ 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے بجائے 'فاٹا کا دن' منایا جائے گا، ہمیں اپنے ملک کے مسائل کے حوالے سے کوئی تشویش نہیں لیکن کشمیر پر بات کرنے کیلئے بہت وقت ہے'۔

انھوں نے 'فاٹا کے 2 کروڑ عوام کیلئے ایک بھی یونیورسٹی یا میڈیکل کالج، قدرتی گیس یا سٹی اسکین کی مشین اور پینے کا صاف پانی نہ ہونے' پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان مسائل کے باوجود فاٹا کے عوام نے کبھی بھی پاکستان مخالف نعرے نہیں لگائے۔

گذشتہ روز اسلام آباد کے کنونشنل سینٹر میں ہونے والے جرگے کی نشاندہی کرتے ہوئے شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ اس اجلاس میں تمام سیاسی جماعتیں موجود تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک واضح پیغام تھا جس پر توجہ دی جانی چاہیے تھی'۔

انھوں نے مزید کہا کہ جب جرگے کے اراکین کو یہ بتایا گیا تھا کہ فاٹا اصلاحات کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہوں گی تو انھوں نے پیکج کی منظوری تک احتجاج نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، 'میں نے انھیں تماشا نہ کرنے کی تجویز دی تھی'۔

انھوں نے کہا کہ 'لیکن ہمیں بدلے میں کیا ملا؟' فاٹا اصلاحات کا معاملہ کابینہ کے ایجنڈے سے ہی نکال دیا گیا، اور قبائلی عوام کو اس فیصلے سے انتہائی مایوسی ہوئی ہے۔

قبائلی عوام کو بغاوت پر مجبور نہ کرنے کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'ہماری جانب سے 12 مارچ ڈیڈ لائن ہے، اگر ہمارا اصلاحات کا پیکج منظور نہ ہوا تو ہم اس وقت تک حکومت کا ایک بھی نظام چلنے نہیں دیں گے جب تک ہمیں دیگر پاکستانیوں کو ملنے والے حقوق فراہم نہ کردیے جائیں'۔

قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے اسے انتہائی افسوس ناک پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں فیصلے کے بعد فاٹا اصلاحات کا پیکج کابینہ کو یہ سوچتے ہوئے بھجوایا گیا تھا حکومت اس مسئلے پر بامعنی پیش رفت کرے گی۔

انھوں نے کہا کہ 'یہ واضح ہوچکا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف، جو ابتدا میں فاٹا اصلاحات کی حمایت کررہے تھے، اب اس کی حوصلہ افزائی نہیں کررہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر اصلاحات کا پیکج منظور ہوجاتا ہے تو یہ ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی'۔

آفتاب احمد شیرپاؤ کا کہنا تھا کہ 'اگر وزیراعظم پر کسی بھی قسم کا دباؤ ہے تو وہ اس سے بالا تر ہوکر اپنا کردار ادا کریں، یہ درست فیصلہ کرنے کا صحیح وقت ہے جو پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے'۔

جماعت اسلامی کے شہزادہ طارق اللہ نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کا پیکج، ایوان میں پیش کی جانے والی ایک جامع رپورٹ ہے،'لیکن ہمیں اب یہ محسوس ہورہا ہے کہ حکومت اس سے کنارہ کشی اختیار کر رہی ہے'۔

انھوں نے کہا کہ اگر 12 مارچ تک اصلاحات منظور نہ کی گئیں، تو 'قبائلی علاقوں کے عوام اسلام آباد پہنچے گئے اور آپ دیکھیں گے کہ اصل دھرنا کسے کہتے ہیں'۔

یہ رپورٹ 8 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں