سعودی عرب نے ان شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے جو آن لائن پلیٹ فارمز پر غزہ سے جاری جنگ سے متعلق اسرائیل کے خلاف تنقیدی خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔

بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق یہ کریک ڈاؤن ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کا عندیہ دیا ہے لیکن صرف اس صورت میں جب اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کرنے پر رضامند ہو جائے۔

رپورٹ کے مطابق نامعلوم سفارتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ حراست میں لیے گئے افراد میں ایک ایگزیکٹو بھی شامل ہے جو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں اہم اقتصادی منصوبے ویژن 2030 میں شامل کمپنی کے لیے کام کرتے تھے۔

سعودی عرب میں لوگوں کو آن لائن پلیٹ فارمز پر اظہار خیال کرنے پر گرفتار کیا جانا ایک عام بات ہے، چاہے وہ تبصرے 10 سال پہلے کیے گئے ہوں، مملکت میں آزادی اظہار اور سیاسی اظہار پر بھی سخت پابندیاں لگ چکی ہیں۔

بلومبرگ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ حراست میں لیے گئے ایک شخص نے کہا تھا کہ ’اسرائیل کو کبھی معاف نہیں کیا جانا چاہیے۔‘

اس کے علاوہ ایک اور شخص کو سعودی عرب میں امریکی فاسٹ فوڈ آؤٹ لیٹس کے بائیکاٹ کی وکالت کرنے پر گرفتار کیا گیا۔

یاد رہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 34 ہزار 596 فلسطینی شہید اور 77 ہزار 816 زخمی ہو چکے ہیں۔

مشرقی وسطیٰ پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ ’مڈل ایسٹ آئی‘ نے تبصرہ کے لیے سعودی وزارت خارجہ سے رابطہ کیا ہے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

2020 اور 2021 میں اسرائیل نے امریکی ثالثی کے ذریعے متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے ساتھ تعلقات معمول کے پر لانے کے لیے معاہدے کیے تھے۔

اس کے بعد سے امریکا کے ایک اہم اتحادی اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ اسی طرح کے معاہدے کے بارے میں مسلسل قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔

جنوری میں لندن میں سعودی سفیر شہزادہ خالد بن بندر نے کہا تھا کہ تعلقات معمول پر لانے کا معاہدہ ’قریب‘ ہے لیکن مملکت نے 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملہ کرنے کے بعد سے غزہ میں جاری جنگ سے ہونے والی صورتحال کے بعد امریکی ثالثی میں ہونے والی بات چیت کو روک دیا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے حال ہی میں کہا تھا کہ امریکا اور سعودی عرب گزشتہ ایک ماہ کے دوران معمول کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے سفارتی کوششوں میں مصروف ہیں۔

انہوں نے ریاض میں ورلڈ اکنامک فورم کے دوران اس بات کا اشارہ کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون آگے بڑھ رہا ہے اور ممکنہ طور پر تکمیل کے قریب ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں