حنا شاہ نواز قتل: کیس نے نیا موڑ اختیار کرلیا

اپ ڈیٹ 13 فروری 2017
حنا شاہ نواز کو رواں ماہ 6 فروری کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا—۔فوٹو/ بشکریہ فیس بک
حنا شاہ نواز کو رواں ماہ 6 فروری کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا—۔فوٹو/ بشکریہ فیس بک

کوہاٹ: صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں ایک این جی او کی خاتون ملازم کے قتل کیس نے اُس وقت نیا موڑ اختیار کرلیا جب کیس میں نامزد مرکزی ملزم نے سوشل میڈیا پر آکر اپنی بے گناہی کا دعویٰ کیا۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق اپنے بیان میں محبوب عالم نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے اپنی کزن کو قتل نہیں کیا بلکہ اصل مجرم کوئی اور ہے۔

ویڈیو پیغام میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خاندان میں بہت سی دیگر لڑکیاں بھی ملازمت کر رہی ہیں جبکہ ان کی اپنی بہن بھی ایک اسکول میں پڑھاتی ہے۔

ساتھ ہی محبوب عالم نے دعویٰ کیا کہ خاتون کے اہلخانہ نے اصل قاتل کو بچانے کے لیے انھیں پھنسایا ہے۔

یاد رہے کہ خاتون کو رواں ماہ 6 فروری کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا۔

جب اس حوالے سے استار زئی پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او نذیر سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ محبوب عالم کے چند رشتہ دار کچھ روز قبل ان کے دفتر آئے تھے اور انھوں نے بھی ان ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔

انھوں نے محبوب کے رشتہ داروں کے حوالے سے بتایا کہ وہ اسے اپنی صفائی دینے اور بیان ریکارڈ کروانے کے لیے پولیس کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں، لیکن پولیس اسے گرفتار نہیں کرے گی۔

تاہم پولیس نے انھیں بتایا کہ محبوب کو مقتول کی بہن نے ایف آئی آر میں براہ راست نامزد کیا ہے، جو اس واقعے کی عینی شاہد ہونے کی دعویدار ہے، لہذا قانونی طور پر وہ اسے کوئی ریلیف فراہم نہیں کرسکتے۔

انھوں نے محبوب کو مشورہ دیا کہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے اس کے پاس جتنے بھی ثبوت ہیں، وہ انھیں عدالت اور قانون کے سامنے پیش کردے۔

پولیس کے پبلک ریلیشنز آفیسر (پی آر او) فضل کریم کا کہنا تھا کہ وہ اُس وقت تک ملزم کی مدد نہیں کرسکتے جب تک وہ ہتھیار نہ ڈال دے۔

مزید پڑھیں:کوہاٹ میں 'غیرت کے نام' پر ملازمت پیشہ خاتون قتل

یاد رہے کہ گذشتہ دنوں اس حوالے سے رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ کوہاٹ میں ایک نوجوان خاتون کو مبینہ طور پر 'غیرت کے نام پر قتل' کردیا گیا۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) کوہاٹ جاوید اقبال نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حنا شاہ نواز نامی خاتون کو ان کے کزن محبوب عالم نے کوہاٹ کے علاقے استارزئی میں 4 گولیاں مار کر قتل کیا۔

ڈی پی او کے مطابق حنا اسلام آباد میں ایک این جی او سے منسلک تھیں اور ماہانہ 80 ہزار روپے کما رہی تھیں اور اپنی والدہ اور بھابی کی کفالت ان کے ذمہ تھی، کیونکہ ان کے والد اور بھائی کا انتقال ہوچکا تھا۔

جاوید اقبال نے بتایا کہ حنا کو مبینہ طور پر ان کے کزن نے قتل کیا، جس کی ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے اور ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔

خاندانی ذرائع کے مطابق حنا کا کزن محبوب ان کی ملازمت کے خلاف تھا اور انھیں متعدد مرتبہ اس سے منع کرچکا تھا، تاہم انھوں نے اپنی ملازمت جاری رکھی، جس کے باعث محبوب نے مبینہ طور پر انھیں قتل کردیا۔

حنا کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر 'جسٹس فار حنا شاہ نواز' کے ہیش ٹیگز بھی گردش کر رہے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Israr MuhammadkhanYousafzai Feb 14, 2017 02:01am
بعض اوقات کسی معاملے کو خوامخوہ اچھالا جاتا ھے میڈیا اس میں پیش پیش ھوتی ھے انسان کا قتل ناقابل معافی جرم ھے مزہبی اور دنیاوی تمام قوانین میں اسکی سزا مقرر ھے لیکن خاتون کے قتل میں "غیرت" کو بغیر تحقیق کے شامل کیا جاتا ھے جو افسوسناک رجحان ھے مثال کے طور پر اس کیس میں پہلے یہ دیکھنا چاہئے تھا کہ جس لڑکی نے ایم فل کیا ھو تو اسکا مطلب ھے کہ انکا خاندان خواتین کے تعلیم اور ملازمت کے حق میں ھے قتل میں جو الزام لگایا جارہا ھے وہ بے معنی ھوجاتا ھے اور جس خاندان میں پہلے سے لڑکیاں ملازمت کررہی ھو تو یہ الزام(غیرت کے نام پر قتل) خارج از امکان ھوجاتا ھے اس کیس میں لڑکی کی تنخواہ وجہ تنازعہ بن سکتی ھے ملازمت نہیں ھم سمجھتے ھیں کہ میڈیا کو اس حوالے سے احتیاط کرنا چاہئے ہر قتل کو بغیر تحقیق کے غیرت کے نام نہیں کرنا چاہئے