لاہور: بھارت نے انڈس واٹر کمشین کے سالانہ اجلاس میں شرکت پر رضامندی کا اظہار کیا ہے، یہ اجلاس رواں ماہ پاکستان میں منعقد کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اوڑی کیمپ پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے کے بعد مبینہ طور پر مذاکرات معطل ہونے کے باعث گذشتہ سال ستمبر میں طے شدہ انڈس واٹر کمیشن کا اجلاس منعقد نہیں ہوا تھا۔

دونوں ممالک کی جانب سے انڈس واٹر کمیشنر کی سربراہی میں وفود حالیہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔

ایک سینئر عہدیدار نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ تسلیم کیا جارہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم کے متنازع جارحانہ بیان کے باوجود سندھ طاس معاہدہ برقرار رہے گا۔

وزارت پانی و بجلی کے عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ 'یہ ایک معمول کا اجلاس ہے اور ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان مسائل، جن میں راٹلے اور کشن گنگا ڈیم شامل ہیں، پر بات نہیں ہوگی، کیونکہ ان معاملات پر پاکستان نے ورلڈ بینک سے رابطہ کیا ہے، اس کے علاوہ متعدد مسائل ایجنڈے کا حصہ ہوں گے، جس پر ہم اس وقت بات نہیں کرسکتے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اب تک اجلاس کے انعقاد کی حتمی تاریخ کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے تاہم یہ تصدیق ہوچکی ہے کہ اجلاس رواں ماہ میں ہوگا'۔

انڈس واٹر کے سابق پاکستانی کمشنر سید جماعت علی شاہ نے ڈان کو بتایا کہ بھارت کی جانب سے اجلاس میں شرکت کی خواہش کا اظہار اس بات کا مظہر ہے کہ معاہدہ برقرار ہے اور گزشتہ سال بھارت کی طرف سے دکھایا جانے والا جارحانہ رویہ محض مخالفانہ بیانات تک محدود تھا۔

سابق کمشنر کا کہنا تھا کہ 'کمیشن کا آخری باقائدہ اجلاس دو سال قبل ہوا تھا اور یہ گذشتہ سال نہیں ہوا۔۔۔۔ بھارت حمتی طور پر اس فیصلے پر پہنچا ہے کہ معاہدہ برقرار رکھا جائے اور اسے کسی بھی سطح پر معطل یا نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے'۔

سید جماعت علی شاہ کا کہنا تھا کہ بھارت اجلاس میں راٹلے اور کشن گنگا ڈیم کے معاملے پر بات کرنا چاہے گا لیکن پاکستان ایسا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ پہلے ہی اس معاملے کے حل کیلئے ورلڈ بینک سے رابطہ کرچکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ معاہدے کے مطابق سالانہ اجلاس منعقد کرنا ضروری ہے، تاہم یہ کسی بھی وقت دونوں یا کسی ایک ملک کی درخواست پر منعقد ہو سکتا ہے۔

سابق کمشنر نے کہا کہ مذکورہ بالا ڈیمز اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہوں گے، تاہم بھارت کی جانب سے معیار ڈیم سمیت چار پن بجلی کے منصوبوں کی تعمیر اور دیگر مسائل پر بات چیت کا امکان ہے۔

یہ رپورٹ 4 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں