لندن: وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے افغانستان کے مشیر برائے قومی سلامتی حنیف اتمار سے برطانوی دارالحکومت میں ملاقات کے دوران اس بات کی شکایت کی کہ افغانستان سے عسکریت پسند پاکستان کے خلاف حملے کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کی جانب سے افغانستان کے ساتھ سرحد بند کیے جانے کے بعد دونوں ممالک کے اعلیٰ رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی براہ راست ملاقات تھی۔

دونوں رہنماؤں کو برطانیہ کے مشیر برائے قومی سلامتی سر مارک لائل گرانٹ کی جانب سے مدعو کیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں گزشتہ ماہ پاک فوج نے ڈیورنڈ لائن پر افغانستان کی سرحد کے اس پار عسکریت پسندوں کے تربیتی ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا تھا، فوجی ذرائع کا کہنا تھا کہ سرحد کے اس پار سے چند سو کلو میٹر کے فاصلے سے جماعت الاحرار کے عسکریت پسند فوج پر حملے کرتے ہیں۔

کابل کو جب ملکی خودمختاری پر حملوں کی شکایات کی گئی تو افغانستان کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سرحد پر تمام فوجی کارروائیاں روکنی چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا افغان سرحد 2 دن کیلئے کھولنے کا فیصلہ

برطانوی وزارت خارجہ نے لندن میں پاک-افغان عہدیداروں کے درمیان ہونے والی ملاقات پر تبصرے سے انکار کیا، تاہم دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ تینوں عہدیداروں نے افغانستان کے عسکریت پسندوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف بڑھتے ہوئے حملوں سے متعلق اسلام آباد کے خدشات پر گفتگو کی۔

خیال رہے کہ پاکستان نے گزشتہ ماہ پنجاب کے شہر لاہور اور سندھ کے شہر سیہون میں ہونے والے دھماکوں کا الزام افغانستان کے دہشت گردوں پر لگایا تھا۔

برطانیہ کو امید ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرانے میں کامیاب ہوجائے گا۔

واضح رہے کہ پاک-افغان سرحد کو گزشتہ ماہ بند کیے جانے کے بعد گزشتہ ہفتے صرف 2 دن کے لیے کھول کر تشویش ناک حالت میں موجود مریضوں اور دونوں جانب پھنسے ہوئے شہریوں کو اپنے اپنے وطن جانے کی اجازت دینے کے بعد واپس بند کردیا گیا تھا۔

پاکستان نے افغانستان کے ساتھ 1100 کلو میٹر سرحد پر سخت انتظامات کرتے ہوئے وفاق کے زیر تحت علاقے فاٹا میں ریڈار سسٹم نصب کیا ہے، جب کہ افغانستان نے بھی سرحد پر اقدامات اٹھائے ہیں جس کے بعد سرکاری کراسنگ پوائنٹس کے علاوہ ایک دوسرے کی سرحد میں داخل ہونا مشکل بن چکا ہے۔

مزید پڑھیں: 'افغانستان ڈیورنڈ لائن کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا'

سرحد بند ہونے کے باعث دونوں ممالک کے تجارتی افراد کو کافی مالی نقصان ہو رہا ہے، اور ہزاروں شپنگ کنٹینرز کراچی میں پھنسے ہوئے ہیں کیوں کہ افغانستان اپنی درآمد کے لیے بھی پاکستان کی بندرگاہوں کو استعمال کرتا ہے۔

دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان لندن میں ایک ایسے وقت میں ملاقات ہوئی ہے، جب اسلام آباد اور کابل کے تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے، سرتاج عزیز نے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان یقین اور اعتماد کی دوبارہ بحالی کے سلسلے میں جامع دو طرفہ خیر سگالی کی ضرورت پر زور دیا۔

پاکستانی عہدیدار اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ افغان حکومت مشرقی افغانستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، مگر ساتھ ہی وہ کابل پر دہشت گردوں کو پناہ گاہیں بنانے کی اجازت دینے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔

اسلام آباد کا کہنا ہے کہ بھارتی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں نے افغان سرزمین پر محفوظ ٹھکانے بنالیے ہیں۔

کئی سالوں سے یہ شکایات کی جاتی رہیں کہ پاکستانی عسکریت پسند بھارت اور افغانستان کو نشانہ بنا رہے ہیں، مگر اب اسلام آباد یہ شکایات کر رہا ہے کہ افغانستان کے عسکریت پسند پاکستان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کراسنگ پوائنٹس کھولے: افغانستان کی 'درخواست'

شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد فرار ہوجانے والے کئی عسکریت پسند اس وقت افغانستان میں موجود ہیں۔

اس وقت القاعدہ، داعش، حقانی نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان کے جنگجوؤں کا مشرقی افغانستان میں گٹھ جوڑ ہوچکا ہے اور کبھی کبھار ایک دوسرے کو مدد بھی فراہم کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ سر مارک لیال گرانٹ 2015 میں برطانیہ کے پہلے قومی سلامتی کے مشیر مقرر ہوئے، اس سے پہلے وہ پاکستان میں 2003 سے 2006 تک بطور ہائی کمشنر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔


یہ خبر 16 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں