پس منظر مضحکہ خیز تھا جبکہ دعویٰ سنسنی خیز۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ، جو کہ کبھی کبھار ہی ہوا کرتی ہے، شاید بنیادی طور پر اس لیے ہوئی ہو تاکہ اسلام آباد میں اتنے پارٹی ارکان ضرور موجود ہوں کہ جمہوری طریقے سے جمہوریت کمزور کرنے کے لیے تئیسویں آئینی ترمیم کو آسانی سے منظور کروا سکیں۔

شاید یہ ثابت کرنے کے لیے کہ نواز شریف کی اپنے سابق سیاسی حریف جنرل پرویز مشرف سے اب بھی نہیں بنتی، اس میٹنگ سے نواز شریف کا صرف ایک ہی بیان باہر آیا کہ جنرل پرویز مشرف نے انہیں 2007 میں انتخابات، جو کہ پھر 2008 میں ہوئے کے بعد اتحادی حکومت بنانے کے لیے ڈیل کی تجویز دی تھی۔

شاید مشرف، جو اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں بے باک ہیں، خود ہی وزیرِ اعظم کے دعوے کی تصدیق یا تردید کریں گے، مگر اس سے ہمیں ملک میں جمہوری دور کے آغاز کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے، جسے اب دس سال ہونے والے ہیں اور دوسری پارلیمنٹ اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ جمہوری فوائد بے پناہ رہیں گے۔ ایک دہائی قبل ملک پر ایک فوجی آمر کی حکمرانی تھی، اور جمہوری ادارے اتنے کمزور تھے کہ ایک شخص ہی یہ فیصلہ کرتا تھا کہ حکومت کون بنائے گا۔ تب سے لے کر آج تک کے حالات دیکھیں تو ہم نے کافی طویل سفر طے کیا ہے۔

آج ملک میں زبردست سیاسی مقابلہ موجود ہے، چاروں صوبوں میں الگ الگ پارٹیوں کی حکومتیں موجود ہیں، اور اگلے انتخابات میں پہلے سے بھی زیادہ شفاف انداز میں عوام اپنا فیصلہ دیں گے۔

یہ پاکستانی ہی ہیں جو اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ ملک پر حکمرانی کون کرے گا۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں تین سطحی حکومتی نظام کی موجودگی، اور جمہوری اصلاحات کا پہلے گلگت بلتستان میں نفاذ اور اب اس کی فاٹا تک توسیع سے ملک میں جمہوری نظام پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔

وہ دن اب ہمیشہ کے لیے جا چکے ہیں جب مضبوط افراد اقتدار پر قبضہ کر لیتے، اور غیر منتخب جج صاحبان غیر قانونی حکومتوں کو قانونی جواز فراہم کر دیتے۔ آزادی کے ستر سال بعد پاکستان ایک پائیدار جمہوریت کے طور پر اپنے آپ کو منوانے کے قریب ہے۔

مگر چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔ تمام تر انتخابی مقابلے اور باقاعدہ انتخابات کے وعدے کے باوجود ملک کے جمہوری ادارے اب بھی اتنے مضبوط نہیں ہوئے ہیں۔ ملک کے منتخب سیاسی ننمائندے بدعنوانی اور سیاست میں قدم رکھنے میں مشکلات دور کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے وہ ایسے نظام میں موجود ہیں جو اپنی ساکھ گنوا چکا ہے اور جس پر زیادہ تر لوگوں کو اعتماد نہیں ہے۔

جمہوریت کا ایک لازمی حصہ، یعنی چیک اینڈ بیلنس ہمارے جمہوری نظام میں موجود نہیں ہے۔ موروثی سیاست سے لے کر سیاست اور کاروبار کے درمیان گٹھ جوڑ تک، اور احتساب کے ناکارہ نظام سے لے کر ریگولیٹری اصلاحات اپنانے سے انکار تک، پاکستان کے جمہوری ادارے نقصان اٹھا رہے ہیں اور یہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

جمہوریت صرف اتنی ہی مضبوط ہوا کرتی ہے جتنا کہ اس پر لوگوں کا یقین۔ اگر ہمارے ادارے شفاف نہیں ہوں گے اور لوگوں کو وہاں سے انصاف نہیں ملے گا، تو جمہوریت سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا اور غیر جمہوری قوتیں پھلتی پھولتی رہیں گی۔ مشرف چاہے اب بھلے ہی اقتدار میں نہ ہوں، مگر ان کے جیسی ذہنیت اب بھی کئی حلقوں میں باقی ہے۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 23 مارچ 2017 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں