خیبرایجنسی کے غاروں میں رہائش پذیر افراد کی داستان

اپ ڈیٹ 04 اپريل 2017
رہائشیوں کے مطابق، غار میں رہنا شہروں میں اینٹ سے بنے گھروں کی نسبت زیادہ بہتر ہے—فوٹو: ڈان اخبار
رہائشیوں کے مطابق، غار میں رہنا شہروں میں اینٹ سے بنے گھروں کی نسبت زیادہ بہتر ہے—فوٹو: ڈان اخبار

پشاور: 68 سالہ حاجی حنیف آفریدی شگائی قلعے کے نزدیک واقع طورخم ہائی وے کے کنارے پر واقع ایک ڈھلوان پتھر پر اپنے لیے گھر کھودنے میں مصروف تھے۔

انھیں اس بات کی خوشی تھی کہ اب وہ 3 مہینے کی شدید گرمی سے بچنے کے لیے پتھر کے اندر رہائش کے لیے چھ خانے بنا سکیں گے، کچھ دیر توقف کے بعد انھوں نے راقم الحروف کے تجسس کو دیکھتے ہوئے بتانا شروع کیا کہ لالا چینا، شگائی، کٹا کشتہ اور علی مسجد کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے 3 ہزار سے ساڑھے 4 ہزار افراد طویل عرصے سے غاروں میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

حنیف آفریدی کے مطابق عام کنکریٹ کے بلاکس سے بنے گھروں کی نسبت غاروں میں رہنا کافی آرام دہ اور آسان ہے، گرمیوں میں قدرتی ایئر کولر اور سردیوں میں ہیٹر جیسا موحول فراہم کرنے والے یہ غار موسم کی شدت میں واضح کمی پیدا کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ غاروں میں رہائش اختیار کرنا مقامی افراد کا قدیم طرزِ رہائش ہے چونکہ اب بھی کئی افراد کنکریٹ کے گھر تعمیر کرنے کی استعداد نہیں رکھتے۔

حنیف آفریدی کا کہنا تھا کہ پہلے اس علاقے کے لوگ ’سماساز‘ یا قدرتی غاروں میں رہتے تھے تاہم اب جگہ کی تنگی کے سبب لوگوں کو پتھر کھود کر اپنے اہل خانہ کی رہائش کو یقینی بنانا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سولر پینلز کی بدولت غاروں میں قائم ان گھروں میں جدید دور کی ہر سہولت موجود ہے، مرکزی جمرود بازار سے صرف تین کلومیٹر کی دوری پر ککی خیل قبیلے کے ہزاروں افراد گودر گاؤں کے غاروں میں رہتے ہیں جبکہ مقامی زبان میں یہ جگہ ‘گارا‘ کہلاتی ہے۔

مقامی رہائشی افراد کے مطابق اس طرز زندگی کے پیچھے شدید غربت اور قدیم رہائشی انداز کار فرما ہیں۔

مقامی اسکول ٹیچر رحمت لحاظ آفریدی نے بتایا کہ جمرود تحصیل میں واقع گودر، لاشورا اور غنڈی کے علاقوں میں رہنے والے افراد کنکریٹ کے گھر تعمیر کرنے کے باجود بھی اپنے جانوروں اور گھریلو سامان کو محفوظ رکھنے کے لیے خندقوں کا استعمال کرتے ہیں جبکہ ہزاروں افراد ایسے ہیں جنہوں نے لوڈشیدنگ میں اضافے کے سبب اپنے قدیم گھروں کو دوبارہ تعمیر کرلیا ہے۔

رحمت لحاظ نے بتایا کہ ’اب بھی لوگ غاروں کو اپنے گھر، حجروں اور مساجد کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ غربت اور قدیم طرز زندگی ہے، وادی تیراہ میں ہمارے ساتھی قبائل عسکریت پسندی کے قہر سے بھاگنے کے بعد غاروں میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے پاس رہنے کی اور کوئی جگہ موجود نہیں، ان میں سے کچھ نے غاروں کو ہی اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں لوگ اپنے جانوروں کو بھی غاروں میں رکھا کرتے تھے مگر جانوروں کے غار الگ ہوتے تھے، اس کے علاوہ کچن اور بیت الخلاء بھی غار سے باہر قائم کیے جاتے تھے تاکہ حفظان صحت کو برقرار رکھا جاسکے۔

45 سالہ صدا گل آفریدی وادی تیراہ کے رہائشی ہیں اور گذشتہ چار سال سے گودر گاؤں میں رہائش پذیر ہیں، انہوں نے اپنے گارا کی دیواروں پر دنیا کے خوبصورت نقشے آویزاں کیے ہوئے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بقیہ زندگی گھر والوں کے ہمراہ اسی غار میں گزاریں گے کیونکہ یہ محفوظ بھی ہے اور پرامن بھی۔

ان کے مطابق ’غار میں رہنا شہروں میں اینٹوں سے بنے گھروں کی نسبت زیادہ بہتر ہے‘۔

پشاور میں وادان کنسلٹنٹس کے پرنسپل محمد طاہر خٹک کہتے ہیں کہ غار بہت قدیم مگر فطرت کے قریب انسانی تعمیرات ہیں، تاہم یہاں رہائش کے اپنے فائدے اور نقصانات ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ غاروں میں رہائش مؤثر اور ماحول دوست ہے، فرانس اور اسپین میں آج بھی غار موجود ہیں جبکہ بھارت کے کئی لوگ بھی غاروں میں رہائش پذیر ہیں اور چین میں 3 کروڑ افراد غاروں میں رہتے ہیں۔

طاہر خٹک کے مطابق غاروں میں رہائش پذیر افراد کے لیے لینڈ سلائیڈنگ، بارشیں اور زلزلے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کے نتیجے میں غاز کسی بھی وقت بیٹھ سکتا ہے، اس کے علاوہ غار میں ہوا کا اچھا گزر اور متبادل خارجی راستہ بھی ہونا چاہیئے۔


یہ خبر 4 اپریل 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں