انقرہ: ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے ذریعے ملک میں آئینی اصلاحات کا مطلب خود کو ’ڈکٹیٹر‘ بنانا نہیں ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کو انٹرویو کے دوران رجب طیب اردگان نے کہا کہ ’ملک کے آئین میں اصلاحات صرف میرے لیے نہیں کی گئیں، میں فانی ہوں اور کسی بھی وقت میری موت واقع ہوسکتی ہے۔‘

انہوں نے نئے اختیارات کے ذریعے ملک کے سیاسی نظام کو بہتر بنانے کے بجائے خود کو طاقتور بنانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ نظام تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے اور اب ترکی کی جمہوری تاریخ میں تبدیلی آگئی ہے۔‘

’اصلاحات آمریت کی جانب قدم نہیں‘

ترک صدر نے ان دعوؤں کی تردید کی کہ نئی اصلاحات ملک میں ڈکٹیٹرشپ (آمریت) کی جانب قدم بڑھانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں آمریت ہوتی ہے وہاں صدارتی نظام کی ضرورت نہیں ہوتی، ہمارے ملک میں انتخابات ہوتے ہیں، جمہوریت عوام سے اپنی طاقت حاصل کرتی ہے اور اسے ہی ہم قوم کی مرضی کہتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیں: اردگان ریفرنڈم میں کامیاب، مخالفین کااحتجاج

واضح رہے کہ دو روز قبل ہونے والے ریفرنڈم میں رجب طیب اردگان نے کامیابی تو حاصل کرلی، لیکن معمولی فرق سے آنے والے نتائج نے ملک کو بری طرح تقسیم کرکے رکھ دیا ہے، جبکہ حزب مخالف کی جانب سے دھاندلی کے الزامات بھی عائد کیے جارہے ہیں۔

تمام بیلٹ باکسز کی گنتی کے بعد سامنے آنے والے نتائج کے مطابق تاریخی ریفرنڈم کے دوران 'ہاں' میں 51.4 فیصد اور 'نہیں' میں 48.6 فیصد ووٹ ڈالے گئے جبکہ ٹرن آؤٹ 85 فی صد رہا۔

ریفرنڈم کے نتائج کے ساتھ ہی آئینی تبدیلی کو منظوری مل گئی اور جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک اور عصمت انونو کے بعد کسی ترک حکمران کو اس قدر وسیع اختیارات حاصل ہوگئے۔

1952 میں نیٹو میں شامل ہونے والے اور گزشتہ نصف صدی سے یورپین یونین میں شمولیت کی کوشش کرنے والے ملک ترکی پر ان نتائج کے گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: عوام کے فیصلے کا احترم کرناچاہیے: ترک وزیراعظم

سپریم الیکشن بورڈ کے سربراہ سعدی گووین نے ریفرنڈم کی کامیابی کی تصدیق کی لیکن مخالفین نے نتائج کو چیلنج کرنے کا عندیہ دیا۔

ترکی میں ریفرنڈم کا انعقاد ایک ایسے وقت میں ہوا جب ملک میں گزشتہ سال جولائی میں اردگان کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایمرجنسی نافذ ہے اور کریک ڈاؤن کے دوران 47 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں