پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاناما لیکس کے مقدمے میں اگر عدالتِ عظمیٰ سے انصاف نہ ملا تو لوگ بہت مایوس ہوں گے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگرچہ عدالت کو کمیشن بنانے کا مکمل حق حاصل ہے، لیکن اتنی طویل سماعتوں کے بعد کمیشن بنانا معنیٰ خیز بات ہوگی، کیونکہ اگر یہی کام کرنا ہوتا تو یہ بہت پہلے ہوچکا ہوتا۔

انھوں نے کہا کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن)، فیصلے سے قبل سڑکوں پر بینرز لگا کر لوگوں میں ایک خوف کی فضا پیدا کررہی ہے اور ماضی میں جس طرح سے ان کے کارکنان نے سپریم کورٹ پر حملے کیے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے حکومت کو مشورہ دیا کہ اگر انہیں اپنے کیس پر یقین ہے تو وہ اس طرح کے اقدامات کرنے کے بجائے سکون سے فیصلے کا انتظار کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگرچہ حکومت نے بار بار کوشش کی کہ کسی طرح پاناما کا معاملہ دم توڑ دے، لیکن ہم نے اس کو ہر سطح پر اٹھایا اور یہاں تک کہ سپریم کورٹ سے پہلی بار درخواست مسترد ہونے کے باوجود بھی ہم ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے اور یہی وجہ ہے کہ آج اس کیس کا ایک تاریخی فیصلہ سنایا جارہا ہے'۔

شاہ محمود قریشی نے کہا، 'مجھے نہیں معلوم عدالت اس کیس کا کیا فیصلہ سنائے گی، لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ ہم عوام کی عدالت میں پاناما کا کیس جیت چکے ہیں'۔

انھوں نے پاناما کیس کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ اس کے بعد ہی تمام دیگر مسائل کا حل نکل سکے گا اور یوں پھر ملک سے کرپشن کا بھی خاتمہ ممکن ہوپائے گا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا پانچ رکنی بینچ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پاناما کیس کا فیصلہ آج دوپہر 2 بجے سنانے جارہا ہے۔

عدالت کی جانب فیصلے کی تاریخ سامنے آنے کے بعد سے قوم کو اس فیصلے کا بے صبری سے انتظار ہے اور تمام نگاہیں سپریم کورٹ کی جانب مرکوز ہیں۔

پاناما لیکس کا معاملہ اُس وقت سامنے آیا تھا، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔

شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کے انکشاف کے بعد پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔

سپریم کورٹ نے 20 اکتوبر 2016 کو وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی تھی، بعد ازاں اس کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔

پہلے سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پاناما لیکس کی درخواستوں پر سماعت کی، تاہم 31 دسمبر کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس ثاقب نثار نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا اور پاناما کیس کی سماعت کے لیے نیا لارجر بینچ تشکیل دیا گیا۔

4 جنوری سے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بننے والے پانچ رکنی نئے لارجر بینچ نے پاناما کیس کی درخواستوں کی سماعت کی، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔

31 جنوری کو ہونے والی سماعت کے بعد لارجر بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید کو دل کی تکلیف کے باعث سماعت ملتوی کردی گئی تھی جس کا دوبارہ سے آغاز پندرہ روز بعد (15 فروری) سے ہوا تھا۔

بعدازاں جج جسٹس آصف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 23 فروری کو محفوظ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں