پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے 20 اپریل کی دوپہر کو سنائے گئے قدرے لچکدار فیصلے سے جہاں حکومت اپنی کامیابی کا جشن منا رہی ہے، وہیں اس کیس میں حکومت کا گھیرا تنگ کرنے والی پاکستان تحریک انصاف بھی اپنی جیت کا جشن منا رہی ہے۔

پاکستان میں پاناما اسکینڈل کیس کا فیصلہ کس کے حق میں آیا،اور کامیابی کس کی ہوئی، اس بحث سے ہٹ کر اگر ہم دنیا میں بھونچال مچانے والے اس اسکینڈل کا عالمی جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ اس حوالے سے قدرے بہتر کام ہمارے ہاں ہی ہوا ہے، پھر چاہے وہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ہی کیوں نہ ہوا ہو۔

گزشتہ برس اپریل ہی کے مہینے میں دنیا بھر میں تہلکہ مچانے والے پاناما اسکینڈل میں پاکستان کے علاوہ، برطانیہ، امریکا، جرمنی، فرانس، چین، روس، بھارت، آسٹریلیا، سعودی عرب، قطر، سویڈن، آئس لینڈ، ارجنٹینا، میکسیکو، اور اٹلی سمیت دنیا کے 100 سے زائد ممالک کے ہزاروں افراد کے 15 لاکھ سے زائد دستاویزات جاری کیے گئے۔

دستاویزات جاری ہونے کے پہلے ہی 3 ہفتوں میں فوری طور پر دنیا کے 35 ممالک نے ان انکشافات پر تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے، آف شور کمپنیز بنانے والے افراد کو ملکی آئین و قانون کے تحت سزائیں دینے کا اعلان کیا۔

مگر آج ایک سال بعد اگر ان دعووں کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا، کیوں کہ عملی طور پر دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی بڑی تبدیلی نہیں آئی، صرف تحقیقات ہی چلتی رہیں، اور ابھی تک چل رہی ہیں۔

پاناما اسکینڈل کیس کے بعد سب سے زیادہ احتجاج یورپی ملک آئس لینڈ میں ہوا، اور شاید اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اسکینڈل میں وہاں کے وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کا نام براہ راست شامل تھا، جب کہ دنیا کے دیگر ممالک کے سربراہوں کے براہ راست نام شامل نہیں۔

لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ آئس لینڈ کے علاوہ کسی بھی ملک کے دوسرے حکمران کا براہ راست نام پاناما اسکینڈل میں نہیں آیا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم کے علاوہ بھی دیگر چند ممالک کے حکمرانوں کے نام براہ راست پاناما اسکینڈل میں شامل تھے۔

پاناما اسکینڈل کا پہلا شکار

اسکینڈل سامنے آنے کے بعد آئس لینڈ میں احتجاج شروع ہوگئے، یہاں تک کہ آئس لینڈ کے وزیر اعظم سگمینڈر ڈیوڈ گیونلاﺅگسن پر انڈوں سے حملہ بھی کیا گیا۔

وزیراعظم نے اپنی اور اہلیہ اینا کی آف شور کمپنی سے متعلق انکشافات سے انکار کیا، مگر عوامی احتجاج کے سامنے مجبور ہوتے ہوئے انہوں نے گزشتہ برس اپریل میں ہی اپنے عہدے سے استعیفیٰ دے دیا۔

پاناما اسکینڈل پر احتجاج، مظاہرے، دباؤ

دنیا میں بھونچال مچانے والے اسکینڈل کا دوسرا شکار کوئی بھی نہیں ہوا، تاہم دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے، احتجاج اور سیاستدانوں پر دباؤ بڑھ گیا۔

برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون پردیگرحکمرانوں کی بنسبت زیادہ دباؤ رہا۔

پاناما اسکینڈل کیس میں ڈیوڈ کیمرون کے والد کی آف شور کمپنی کا انکشاف ہوا تھا، حتیٰ کہ انہوں نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت بھی کی تھی، تاہم عوام مطمئن نہیں ہوئے، بعد ازاں برطانیہ میں پاناما اسکینڈل پر تحقیقات کا اعلان کردیا گیا۔

اسکینڈل میں شامل حالیہ حکمران

آئس لینڈ کے وزیر اعظم کے علاوہ جن دیگر چند ممالک کے حکمرانوں کے نام براہ راست اسکینڈل کا حصہ ہیں ان میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشینکو، آسٹریلوی وزیر اعظم مالکوم ٹرن بل، ارجنٹائن کے وزیر اعظم شامل ہیں۔

دنیا کے جن ممالک کے حالیہ سربراہوں کا نام پاناما میں شامل ہے، ان کے خلاف بھی تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی، اگر کسی ملک میں حکومتی یا عدالتی سطح کی کوئی تحقیقات چل بھی رہی ہیں تو وہ بھی تاحال بے نتیجہ ہیں۔

سابق حکمران اور سیاستدان

آف شور کمپنیز رکھنے والوں میں برونائی کے سلطان کے نوجوان بھائی پرنس جیفری بولکیان، چینی صدر شی جن پنگ کے قریبی رشتہ دار، وزیر اعظم نواز شریف کی اولاد، بے نظیر بھٹو، ولادی میر پیوٹن کا قریبی دوست سرگی رولڈوگن، عراق کے سابق عبوری وزیر اعظم اور نائب صدرایاد علاوی بھی شامل تھے۔

اس فہرست میں سابق مصری صدر کے بیٹے آلا مبارک، آئس لینڈ کے وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد، آذربائیجان کے صدر کے بچے، اسرائیل کے سابق وزیر ایرل شیرون, مراکش کے کنگ محمد ششم،ارجنٹینا کے صدرموریشو میکریز کے والد اوربھائی کے نام سمیت اسپین کے بادشاہ کنگ فلپ کی آنٹی کا نام بھی آیا۔

مجموعی طور پر پاناما میں صرف 140 سیاستدانوں کے نام شامل تھے، جن میں صرف 12 سیاستدان ایسے تھے، جنہیں قومی سطح کا سیاستدان تسلیم کیا جاتا ہے، ان میں سے بھی نصف درجن سے بھی کم سیاستدان ایسے تھے، جن کی براہ راست آف شور کمپنیز تھیں۔

پاناما میں شامل دیگر افراد

یورپی یونین میں شامل ممالک کے افراد کی 3500 آف شور کمپنیز کا انکشاف ہوا، ہالینڈ کی بھی 500 سے زائد کمپنیاں سامنے آئیں، جب کہ بھارت کے 1800 افراد کے نام بھی سامنے آئے۔

آف شور کمپنیز رکھنے والوں میں زیادہ تر افراد کاروباری تھے، جب کہ اس فہرست میں کھلاڑی، اداکار، قانوندان، سماجی رہنما اور عام افراد بھی شامل تھے۔

پاناما اسکینڈل میں فیفا کی اخلاقیات کمیٹی کے رکن جان پیدرو دمیانی، معروف فٹ بالرلیونل میسی، فلم اسٹار جیکی چن، امیتابھ بچن، ایشوریا رائے، اجے دیو گن اور اسپینش آسکر ونر پیدرو الموڈوور کا نام بھی سامنے آیا۔

پاناما پر دنیا بھر میں تحقیقات

پاناما اسکینڈل کے سامنے آتے ہی 35 ممالک نے تحقیقات شروع کرانے کا اعلان کیا ان میں برطانیہ، اسپین، اٹلی، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک نمایاں تھے۔

پاناما اسکینڈل کی پہلی سالگرہ پر مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹس میں بتایا گیا کہ آف شور کمپنیز پر دنیا کے مختلف 70 ممالک میں 150 سے زائد تحقیقات جاری ہیں۔

خبر رساں اداروں کے مطابق ان ممالک میں ہونے والی تحقیقات کا تاحال کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔

جن ممالک میں تحقیقات جاری ہیں ان میں یورپی ملک آندورا، آسٹریا، سائپرس، جارجیا، یونان، اٹلی، مالٹا، ناروے، روس، سوئٹزرلینڈ، سویڈن، آرمنینیا، آذربائیجان، پاکستان، بنگلادیش اور بھارت شامل ہیں۔

کہاں کس طرح کی تحقیقات ہو رہی ہیں؟

پاکستان میں سپریم کورٹ نے 20 اپریل کو دئیے گئے فیصلے میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا حکم دیا، تاہم دیگر کچھ ممالک میں بھی اسی طرز کی تحقیقات جاری ہیں، مگر ان کے نتائج تاحال برآمد نہیں ہوئے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی پاناما اسکینڈل پر مختلف اداروں پر مبنی تحقیقاتی ٹیم بنانے کا اعلان کیا، مگر تاحال وہاں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

بنگلادیش میں اینٹی کرپشن کمیشن پاناما اسکینڈل کیس کی تحقیقات کر رہا ہے، ہالینڈ میں حکومتی ادارے تحقیقات کر رہے ہیں، جنہوں نے پہلی بار رواں ماہ عدالت میں پاناما کے حوالے سے اپنی رپورٹ جمع کروائی۔

یورپی یونین میں شامل ممالک میں یونین کا ’یوروپول‘ نامی ادارہ اور یورپی یونین پارلیمنٹ کی 65 رکنی تحقیقاتی کمیٹی کام کر رہی ہے، مگر تاحال ان کے بھی کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔

یورپی یونین پارلیمنٹ کی 65 رکنی کمیٹی نے پاناما اسکینڈل سامنے لانے والی ٹیم میں شامل صحافیوں سے بھی ملاقاتیں کیں ہیں، مگر تحقیقات کے نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔

یورپی یونین کی اولاف نامی اینٹی فراڈ ایجنسی بھی اس حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے۔

چین میں ایک 8 رکنی کمیٹی بنائی گئی، جس میں سابق اور حالیہ حکومتی عہدیداروں کو شامل کیا گیا، امریکا کے وزات انصاف و قانون نے اعلان کیا کہ وہ پاناما لیکس کے معاملے پر تحقیقات کریں گے۔

اسرائیل، اٹلی، فرانس، جرمنی، قطر، کوسٹا ریکا، یوکرین اور میکسیکو سمیت دیگر ممالک میں بھی پاناما پر تحقیقات کا اعلان کیے گئے۔

دنیا کے 70 ممالک میں کہیں حکومتی عہدیداروں پر مبنی، کہیں تحقیقاتی اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل تو کہیں عدالتی وپارلیمانی طرز کی کمیٹیاں پاناما پر تحقیقات کر رہی ہیں، مگر کہیں بھی ان تحقیقات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔

تحقیقات کے نتائج برآمد نہ ہونے کے اسباب

اس حوالے سے کوئی حتمی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، مگر ماہرین کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں پاناما پر ہونے والی تحقیقات کے نتائج برآمد نہ ہونے کا ایک سبب سیاستدانوں کا براہ راست ملوث نہ ہونا ہے۔

جب کہ کئی ممالک میں یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ ٹیکس سے بچنے کے لیے قانونی راستے اختیار کرنا کوئی جرم نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں