قصہ خوانی بازار میں قہوہ خانے کم کیوں ہونے لگے؟

اپ ڈیٹ 04 مئ 2017
قصہ خوانی بازار میں اب صرف 3 سے 5 قہوہ خانے ہی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں—۔فوٹو/ ڈان
قصہ خوانی بازار میں اب صرف 3 سے 5 قہوہ خانے ہی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں—۔فوٹو/ ڈان

پشاور کا تاریخی قصہ خوانی بازار اب ویرانی کے دہانے پر موجود ہے، جہاں چند دہائیوں قبل تعمیر ہونے والے اور ثقافتی ورثہ سمجھے جانے والے قہوہ خانے اب آہستہ آہستہ آئس کریم پارلر اور جوس پوائنٹ میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

اس بازار میں اب صرف 3 سے 5 قہوہ خانے ہی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں جو علاقے میں سبز چائے فروخت کر رہے ہیں۔

تاہم قصہ خوانی بازار کے داخلی راستہ پر تقریباً 100 برس قبل تعمیر کیا جانے والا قہوہ خانہ اب بھی سبز چائے بنا رہا ہے، اس قہوہ خانہ میں 6 لڑکے صبح سے شام تک مخصوص کیتلیوں میں شین چائے (سبز چائے) کے ساتھ آنے والے گاہکوں کی تواضع کرتے ہیں۔

سبز چائے ابھی بھی پختونوں کا پسندیدہ مشروب ہے۔

اس قہوہ خانہ پر کام کرنے والے ایک لڑکے رومان علی نے بتایا کہ حال ہی میں ایک چینی وفد نے بھی یہاں کا دورہ کیا تھا اور سبز چائے سے بھی محظوظ ہوئے تھے، اس کا مزید کہنا تھا کہ چینی وفد کے ارکان نے اپنے ہاتھ ہلا کر خوشی کا اظہار کیا تھا۔

رومان علی نے بتایا، 'ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ ان لوگوں نے چینی زبان میں کیا کہا لیکن پھر بھی ہمارا خیال ہے کہ وہ لوگ ہم سے کہنا چاہتے تھے کہ یہ دنیا کی سب سے پرانی اور بہترین جگہ ہے اور انہوں نے یہاں سبز چائے کا لطف اٹھایا'۔

پشاور کے شہریوں کے مطابق یہ قہوہ خانے یہاں پر رات میں مسافروں کے قیام کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں جبکہ اس سے متصل کیفے ہاؤس پر بیورو کریٹس، شاعر، دانشور اور مصنف چائے کے ساتھ گفتگو میں مصروف رہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پشاور کا قدیم ورثہ وارثوں کا منتظر

ان قہوہ خانوں میں سے صرف ایک ہی مغل طرز تعمیر پر بنا ہوا ہے جو کہ اب تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے، جس میں تقریباً 6 کمرے ہیں جن میں مختلف بستر لگے ہوئے ہیں، ایک رات قیام کے لیے ان کا کرایہ 50 سے 80 روپے ہے۔

اس قہوہ خانے کی پہلی منزل پر چائے پینے کی جگہ جبکہ دوسری منزل پر ایک گیسٹ ہاؤس بنا ہوا ہے جس میں تقریباً 20 بستر لگے ہوئے ہیں جہاں پر غریب مسافر رات میں قیام کرتے ہیں۔

قہوہ خانے کے مالک زرجان خان نے بتایا کہ وہ قصہ خوانی بازار میں پچھلے 40 برس سے یہ چائے کا ہوٹل چلا رہے ہیں، جہاں پر ہزاروں لوگ چائے پی چکے ہیں۔

65 سالہ زرجان خان نے بتایا کہ وہ مہمند ایجنسی سے پشاور آئے تھے، اُس وقت یہاں پر کئی قہوہ خانے تھے جو اب کم ہو کر صرف 5 ہی رہ گئے ہیں جبکہ باقی تمام یا تو مسمار کر دیئے گئے ہیں یا پھر آئس کریم پارلر اور جوس پوائنٹ میں تبدیل ہوگئے ہیں۔

ماضی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کو یاد کرتے ہوئے زرجان خان کا کہنا تھا کہ میں 29 ستمبر 2013 کے بدقسمت دن کو کبھی نہیں بھول سکتا جب ایک خطرناک بم دھماکے نے 41 لوگوں کی جان لے لی تھیں جبکہ 100 سے زائد افراد اس میں زخمی بھی ہوگئے تھے، انہوں نے بتایا کہ اس دھماکے میں ان کے ہوٹل کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا اور 4 چائے پہنچانے والے لڑکے بھی زخمی ہوگئے تھے۔

زرجان خان نے بتایا کہ انہوں نے اس ہوٹل کو دوبارہ تعمیر کروایا تاکہ اس کی اہمیت کو برقرار رکھا جا سکے، ان کا مزید کہنا تھا کہ 'میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہوٹل یہاں آنے والوں کے لیے محفوظ مقام ہونا چاہیئے'۔

مزیدپڑھیں: برہمن آباد، سندھ کا قدیم تجارتی مرکز

پشاور کی پرانی عمارتوں کے ماہر محمد ابراہیم ضیا نے بتایا کہ قصہ خوانی بازار میں موجود چائے کا یہ ہوٹل مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے، یہ ہوٹل چائے کا مرکز، گیسٹ ہاؤس اور دانشوروں کے لیے کیفے ہاؤس کا بھی کام سر انجام دیتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سن 1980 کی دہائی میں یہ قہوہ خانے لوگوں کے لیے ایک پرجوش جگہ ہوا کرتے تھے لیکن اس کے بعد عدم تحفظ نے پشاور شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور قصہ خوانی بازار کی خوبصورتی کو گرہن لگ گیا۔

پشاور یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کے ایک طالب علم سید سجاد شاہ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے شہر میں اس طرح کے پرانے اور تاریخی مقامات کو قائم رکھنے کا وعدہ کیا ہے تاہم حکومت کی جانب سے اس طرح کا کوئی منصوبہ نظر نہیں آتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پرانی عمارتیں آثار قدیمہ کے حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہیں جو یہاں پر لوگوں اور ان کی ثقافت سے منسوب کہانیاں بیان کرتی ہیں۔

سید سجاد شاہ نے کہا کہ یہ پرانے قہوہ خانے ہمارا قدیم اثاثہ ہیں جنہیں ہم ایک کے بعد ایک کھوتے چلے جارہے ہیں، جیسا کہ شہر میں دوسری تاریخی عمارتوں کے ساتھ ہورہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چند تبدیلیاں جیسے ماڈرن واش روم، فیبرک شیٹ کور اور نئے فرنیشنگ بستر کی مدد سے ان قہوہ خانوں میں ثقافتی ورثے کے طور پر نئی جان پھونکی جاسکتی ہے۔

یہ خبر 4 مئی 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں