خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے دو گاؤں کی خواتین کو بدھ ہونے والے ضمنی انتخابات میں ووٹ دینے کے حق سے محروم کردیا گیا۔

خیبر پختونخوا میں ضمنی انتخابات صوبے کے 14 اضلاع کے 40 گاؤں/کونسلز میں 43 خالی نشستوں کے لیے منعقد کرائے گئے۔

یہ نشستیں منتخب کونسلرز کے سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کے بعد خالی ہوگئی تھیں۔

ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا کہ دو گاؤں کی کونسلز کوز کانا اور سنگرائی کے امیدواروں اور مقامی معززین نے متفقہ طور پر خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔

دونوں گاؤں کے 14 پولنگ اسٹیشنز پر کسی خاتون کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا۔

ڈسٹرکٹ الیکشن افسر (ڈی ای او) سردار سعید الرحمٰن نے رابطہ کرنے پر مقامی افراد کی جانب سے ’ان کی ثقافت کے مطابق‘ خواتین پر ووٹ ڈالنے کی پابندی کی تصدیق کی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ پابندی الیکشن کمیشن کی جانب سے مقامی افراد میں خواتین کے حقوق سے متعلق آگاہی دیئے جانے کے باوجود عائد کی گئی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے مقامی افراد اس حوالے سے کچھ سمجھنا یا سننا نہیں چاہتے۔

ڈسٹرکٹ الیکشن افسر نے کہا کہ پولنگ اسٹیشنز پر خواتین سمیت 35 افراد پر مشتمل عملہ تعینات کیا گیا تھا، جبکہ ہر پولنگ اسٹیشن پر سیکیورٹی کے لیے 60 پولیس اہلکار بھی تعینات کیے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ضمنی انتخابات کے لیے 5 امیدوار میدان میں تھے، گل کمال، لیاقت علی اور انور زادا نے کوز کانا گاؤں کی کونسل کے لیے حصہ لیا، جبکہ محمد روم اور فضل قادر سنگرائی میں انتخاب کے میدان میں اترے تھے۔

انتخابات میں حصہ لینے والے ایک امیدوار سے جب پوچھا گیا کہ خواتین کو ووٹ ڈالنے سے کیوں روکا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ قدیم روایت کے مطابق خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی ہے۔

انہوں نے مردوں اور خواتین کے پولنگ اسٹیشنز کو اکٹھا کرنے کے الیکشن کمیشن کے منصوبے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔

کوز کانا میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 6 ہزار 643 ہے، جن میں مرد ووٹرز 3 ہزار 652 اور خواتین ووٹرز 2 ہزار 991 ہیں۔

اسی طرح سنگرائی میں ایک ہزار 507 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے مردوں کی تعداد 862 اور خواتین کی تعداد 705 ہیں۔

ضمنی انتخابات کے دوران مردوں کے پولنگ اسٹیشنز پر ووٹنگ کا عمل بغیر کسی ناخوشگوار واقعے کے شام 5 بجے مکمل ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں