لاڑکانہ: چانڈکا میڈیکل کالج ہسپتال (سی ایم سی ایچ) کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عنایت کندھرو نے دعویٰ کیا ہے کہ پیرامیڈیکل اسٹاف کی 3 روزہ ہڑتال کی وجہ سے ہسپتال اور اس سے ملحقہ دیگر صحت کے مراکز میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ذرائع کے مطابق میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے 23 مئی کو ڈسٹرکٹ جج کو ایک خط لکھا جس میں انہوں بتایا کہ ڈاکٹروں کی عدم ہدایات، آکسیجن سیلنڈرز کی چابیاں ہٹانے اورمیڈیکل اسٹور سے ادویات کے غائب ہوجانے کی وجہ سے ہسپتال میں زیادہ تر مریضوں کا انتقال ہوا۔

خط میں بتایا گیا کہ جن مریضوں کو تشویش ناک حالت میں ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا، انہیں وقت پر آکسیجن نہ مل سکی، جس کے باعث ان کی حالت مزید سنگین ہوگئی تھی۔

مزید پڑھیں: فیس دو، لاش لے جاؤ — ہسپتالوں کی کہانی ایک ڈاکٹر کی زبانی

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہڑتال میں شریک افراد نے ہسپتال میں توڑ پھوڑ کی اور قیمتی مشینوں کو نقصان پہنچایا جبکہ ہسپتال کے اندرونی بجلی کے کنکشن کاٹ دیئے، اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ اپنی ڈیوٹی پر مامور افراد سے آکسیجن سلینڈرز اور چابیاں بھی چھین کر لے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ افراد شاہی خان جنگیرانی کی سربراہی میں آئے تھے، جن کے ہمراہ ذوالفقار سہیتو، خالد جتوئی، اعجاز چانڈیو، فضل محمد میمن، اللہ نواز منگن، مظہر علی چانڈیو اور قمر الدین شیخ بھی تھے۔

انہوں نے بتایا کہ 16 مئی سے جاری یہ ہڑتال اچانک بلائی گئی، جس کا کوئی جواز نہیں ہے، انہوں نے خط میں کہا کہ پیرامیڈیکل اسٹاف مطالبات کے لیے اپنی آواز پر امن طریقے سے اٹھا سکتے تھے جس میں پہلے ٹوکن ہڑتال اور پھر مکمل ہڑتال ہوتی ہے لیکن انہوں نے اچانک مکمل ہڑتال کا اعلان کیا اور ساتھ ہی تمام اسٹاف کو زبردستی اس میں شامل ہونے کا کہا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈبلیو ایچ او کی سربراہی: پاکستانی ڈاکٹر حتمی اُمیدواروں میں شامل

میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے ہڑتال میں شریک پیرامیڈیکل اسٹاف کو جاری کیے جانے والے نوٹس کی کاپی خط کے ساتھ منسلک کی جبکہ اس خط کی ایک کاپی پیرامیڈیکل اسٹاف کے خلاف کارروائی کے لیے جوڈیشل میجسٹریٹ کو بھی ارسال کی۔

انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کے لاڑکانہ بینچ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف ہڑتال پر نہیں جاسکتے تھے کیونکہ انہیں مریضوں کی جان بچانے کے لیے علاج و معالجے کی سہولیات فراہم کرنا تھی۔

یاد رہے کہ پیرامیڈیکل اسٹاف نے 16 مئی کو ہڑتال کا اعلان کیا تھا جسے چار روز بعد ختم کر دیا گیا تھا، اس دوران پیرامیڈیکل اسٹاف نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا تھا کہ ہسپتال میں 20 گریڈ کے آفیسر کو بطور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تعینات کیا جائے۔

یہ خبر بھی پڑھیں: لاہور کے سرکاری ہسپتال میں میرے 10 تکلیف دہ دن

خط کے مطابق اس غیر قانونی ہڑتال اور او پی ڈی کی جبری بندش کی وجہ سے عام لوگوں کو علاج معالجے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جس سے ہزاروں افراد کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوئے۔

پیرامیڈیکل اسٹاف کی ایسوسی ایشن کے صدر شاہی خان جنگیرانی اور جنرل سیکریٹری ذوالفقار سہیتو عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے اوپر لگائے جانے والے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ہڑتال صرف میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے خلاف تھی۔

دوسری جانب میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے سچل، رحمت پور اور سول لائنز کے تھانوں سے ان 8 افراد کے خلاف ہسپتال انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کرنے اور ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کی دی جانے والی طبی امداد میں رکاوٹ پیدا کرنے پر ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کردی۔

یہ خبر 29 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں