فیس دو، لاش لے جاؤ — ہسپتالوں کی کہانی ایک ڈاکٹر کی زبانی

فیس دو، لاش لے جاؤ — ہسپتالوں کی کہانی ایک ڈاکٹر کی زبانی

جہانزیب آفندی

پڑھائی کے دوران اور ختم ہونے کے بعد بھی مجھے کراچی کے ہسپتالوں میں کام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اپنی تمام تر صلاحیت و قابلیت سے اپنے مریضوں کی خدمت کرتے وقت میرے تجربوں نے پاکستان میں شعبہ صحت کی صورتحال، جو بڑی حد تک غلط فہمی ہے — اور تھوڑی حد تک درست بھی ہے— کے بارے میں میری آنکھیں کھول دیں۔

میں نے سرکاری ہسپتالوں کی اہمیت کو سمجھا، جو کہ بدتر صورتحال میں بھی اپنے فرائض کی انجام دہی کسی حد تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف، نجی ہسپتالوں نے مجھے نجی بنیادوں پر صحت کا خیال رکھنے کی غیر منصفانہ روش کے بارے میں سکھایا۔ مگر میں نے بے غرض افراد اور گروپس کو کچھ غیر معمولی کام کرتے ہوئے بھی دیکھا، جس نے میرے اندر اس امید کو جنم دیا کہ پورے ملک میں شعبہ صحت کا ایک بہتر نظام ضرور ممکن ہے۔

عالمی یوم صحت کے موقعے پر میں آپ سے اپنے تجربات کا تبادلہ کرنا چاہوں گا۔

سرکاری ہسپتال کس طرح فائدہ مند ہیں

سرکاری ہسپتال لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو مفت میں طبی، جراحی اور ایمرجنسی نگہداشت فراہم کرتے ہیں۔ کئی افراد کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ یہ ہسپتال 24 گھنٹے اسپیشلسٹ علاج بھی فراہم کرتے ہیں۔ میری ہاؤس جاب کے پہلے ماہ کے دوران اور میری دوسری رات کو جب میں میرے ای این ٹی وارڈ کے کال روم میں لوٹا ہی تھا کہ تب رات کے دو بجے میرے دروازے پر زوردار دستک سنی۔ دیکھا کہ ایک عمر رسیدہ شخص ہیں اور اپنی بانہوں میں اپنی تین سالہ پوتی کو اٹھائے کھڑے ہیں۔

وہ صاحب انتہائی پریشانی کے عالم میں تھے اور مجھے بتانے لگے کہ بچی نے غلطی سے اپنے کان میں کچھ ڈال دیا ہے۔ میں نے انہیں پروسیجر روم جانے کو کہا اور میں نے اپنا طبی آلات کا باکس اٹھایا اور بچی کا معائنہ کرنے چلا گیا۔

میں نے اپنے آلات کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے اسٹریلائز کیا اور اپنے وارڈ اسسٹنٹ کو بچی کو پکڑنے کا کہا تا کہ بچی کے کان سے اس شے کو نکالا جائے جو اس نے غلطی سے کان میں ڈال دی تھی۔ لڑکی کے کان سے دو چھوٹے موتی نکلے۔

میری ہاؤس جاب کے ایک ہفتے کے بعد، ایسے کیسز روز کا معمول بن گئے تھے۔ مگر جس بات نے مجھے حیران کیا وہ تھا اس دادا کا رد عمل۔ وہ بزرگ شخص اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ انہوں نے مجھ سے بتایا کہ وہ کس قدر شکر گزار ہیں اور کس طرح سرکاری ہسپتالوں کا ہونا ایک رحمت سے کم نہیں جہاں رات گئے بھی ای این ٹی ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔

پڑھیے: علاج اچھا، پر غریب کے لیے نہیں

"رات کے اس پہر میں ایک غریب شخص اگر سرکاری ہسپتالیں نہ جائے تو کہاں جائے؟ ہم نجی ہسپتالوں کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے جہاں ایک ای این ٹی ماہر ڈاکٹر کو گھر سے بلانے پر ہم سے ہزاروں روپے لیے جاتے۔"

وہ بالکل درست تھے۔ نجی ہسپتالوں کے ایمرجنسی روم میں کام کرنے کے میرے تجربے کے دوران، مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک ای این ٹی ماہر ڈاکٹر اپنے گھر سے ایمرجنسی روم تک آنے کے 25 ہزار روپے لیتے ہیں۔ یہ صرف ان کی ذاتی فیس ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایمرجنسی کا خرچہ (فی گھنٹہ کے حساب سے)، پروسیجر روم (مائنر آپریشن تھیٹر)، اور دیگر خرچوں کی مجموعی رقم ایک عام آدمی کو مقروض بنانے کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں سرکاری ہسپتالوں میں اپنے علاج معالجے کے نظام اور سہولیات کو بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے— تصویر: وائٹ اسٹار
پاکستان میں سرکاری ہسپتالوں میں اپنے علاج معالجے کے نظام اور سہولیات کو بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے— تصویر: وائٹ اسٹار

چند دنوں بعد میرے پاس ایک اور پانچ سالہ بچی کا کیس آیا، جس نے ایک سکہ نگل لیا تھا۔ ہماری ہسپتال میں 24 گھنٹے ریڈیو تھیریپی کی فراہمی سے مجھے بچی کے جسم کا وہ حصہ ڈھونڈنے میں مدد ملی جہاں سکہ پھنسا تھا اور ایک پوسٹ گریجوئٹ ٹرینی کے ساتھ مشاورت کے بعد ہم نے بچی کو مانیٹر کرنے کے لیے داخل کر لیا۔

اگلی صبح، ہم نے سکہ ڈھونڈ نکالا تھا، سکہ نرخرا یا غذا کی نالی میں تھا، اور اسے آپریشن تھیٹر میں لے گئے جہاں ایک ڈاکٹر نے سکہ نکالنے میں مجھے گائیڈ کیا۔

مجھے آنسوؤں سے بھیگی اس والد کی آنکھیں اب بھی یاد ہیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسے رات کو ایمرجنسی یونٹ سے ایک گھنٹے سے زائد وقت کی دوری پر واقع اسٹیل ٹاؤن سے رکشہ ڈھونڈنے میں کس قدر دشواری پیش آئی تھی، کیونکہ وہ ایمبولینس کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔

یہ تو صرف دو چھوٹے کیسز تھے۔ سرکاری ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں تو اس سے کہیں زیادہ تشویشناک کیسز سے نمٹا جاتا ہے اور ان لوگوں کے لیے زندگی بجانے کا باعث بنتا ہے جو کہیں اور جانے سے لاچار ہیں۔

شعبہ صحت کے سنگین مسائل اپنی جگہ باقی ہیں

مگر سنگین مسائل اپنی جگہ باقی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے کے دوران میں نے دیکھا کہ طبی سروس معیاری نہیں تھی۔ جراثیم سے پاک آلات کی قلت تھی، تکنیک کی کمی اور آپریشن کے بعد کی نگہداشت اس معیار کی نہیں تھی جو کہ ہونے چاہیے۔ نتیجتاً، ان ہسپتالوں میں آپریشنز کروانے والے مریضوں میں انفیکشن کی شرح زیادہ پائی جاتی ہے اور نجی ہسپتالوں کے مقابلے میں شرح اموات کافی زیادہ ہے۔

ڈاکٹرز کبھی کبھار اپنی ہسپتال کے ڈپارٹمنٹس پر اعتماد نہیں رکھتے۔ مجھے ایک گھریلو ملازم یاد ہے جو نگرپارکر کے قریب واقع ایک گاؤں سے اپنے ساتھ تیز بخار اور غنودگی کی حالت میں ایک آٹھ ماہ کا بچہ لایا تھا۔ اسے مجبوراً کراچی آنا پڑا تھا، کیونکہ اس کے گاؤں اور کراچی کے درمیان کوئی ایسا ہسپتال نہیں ہے جو شیر خوار بچے کی صحت کی نگہداشت کی خدمات فراہم کرتا ہو۔

سرکاری ہسپتالوں کی بدتر صورتحال کئی مریضوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیتی ہے — تصویر: وائٹ اسٹار
سرکاری ہسپتالوں کی بدتر صورتحال کئی مریضوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیتی ہے — تصویر: وائٹ اسٹار

مختلف ٹیسٹوں سے تصدیق ہوئی کہ بچے کو مہلک گردن توڑ بخار یا مینن جائٹس (Meningitis) کا شکار ہے۔ اس کا علاج کیا گیا اور اس کی زندگی کو بچا لیا گیا۔ IV اینٹی وائرل تھیریپی مفت میں فراہم تھی۔ اگرچہ علاج تو مفت تھا مگر ہسپتال کے عملے نے بچے کے والد کو مختلف ہسپتالوں میں جا کر تشخیصی ٹیسٹ کروانے کا کہا، کیونکہ وہ خاص طور پر ایسے تشویشناک کیسز میں اپنی لیبارٹری پر اعتماد نہیں کرتے۔

کرپشن اور غیر اخلاقی عوامل کا عذاب

سرکاری ہسپتالوں کو بھی ان بیماریوں نے جکڑا ہوا ہے جن کی وبا باقی سرکاری اداروں تک بھی پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں بھی کافی کرپشن اور اقربا پروری موجود ہے۔

مثلاً، کراچی کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں موجود تشخیصی لیبارٹری پر کھڑے سیکیورٹی گارڈز ٹیسٹ رپورٹس کے بدلے میں پیسے طلب کرتے ہیں، جو کہ ہسپتال میں بالکل مفت کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح وارڈز پر تعینات سیکیورٹی گارڈز مریضوں سے ملنے کے لیے آنے والوں کی کھال اتارتے ہیں۔

پڑھیے: بجٹ اور صحت کا شعبہ

نرسنگ عملہ بھی اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ مریضوں کو دی جانے والی ادویات وہ نہیں تھیں جو ہم نے داخل مریضوں کے لیے منگوائی تھیں، جس سے نرسوں اور میرے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے۔

میں نے یہ دیکھا کہ کئی زیرِ تربیت ڈاکٹرز اپنے رشتہ داروں اور جاننے والوں کو وہ دوائیں دے دیتے تھے جو کہ صرف ہسپتال میں داخل مریضوں کے لیے ہوتی تھیں۔

میری ای این ٹی ڈیوٹی کے دوران ہزاروں روپے کے آلات سے بھرا ٹول باکس دفتر ملازموں کی موجودگی میں دفتر سے چوری ہو گیا تھا۔ غریب مریضوں کے علاج معالجے کے لیے کئی ادویاتی کمپنیوں اور ڈاکثرز کی جانب سے آلات عطیہ کیے گئے۔ ہم اپنے کھوئے ہوئے آلات کبھی واپس حاصل نہ کر سکے۔

ڈپٹی میڈیکل سپریٹنڈنٹ (ڈی ایم ایس) کے دفتر سے فون کالز موصول ہونا ایک عام سی بات تھی، جن میں وہ ہاؤس افسر کو ایمرجنسی روم میں فوراً جا کر مریض کو دیکھنے کا حکم دیتے۔ یہ وہ مریض ہوتے تھے جو ڈاکٹرز سے ترجیحی بنیادوں پر علاج معالجہ کروانے کے لیے اعلیٰ عہدے داروں — اکثر وزارت داخلہ اور صحت کے — کو فون ملا کر سفارشات کرواتے تھے۔

ہمارے ڈی ایم ایس دفتر سے ہونے والی فون کالز کافی بیہودہ اور ناگوار ہوتی تھیں۔ ایمرجنسی روم میں مریضوں کو دیکھتے وقت وہاں ڈاکٹرز کو ہمیشہ زبانی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بننے کا اندیشہ رہتا تھا۔

سرکاری ہسپتالوں میں سیکیورٹی کی عدم دستیابی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایسے لامحدود کیسز ہیں جن میں عملے کو زبانی، جسمانی، اور یہاں تک کہ جنسی طور پر بھی ہراساں اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

ایک ایسا ہی حادثہ ایک ہسپتال میں پیش آیا جہاں میں کام کرتا تھا، وہاں سیاسی پارٹی کے کارکنوں نے ہسپتال میں داخل گولیاں لگنے سے زخمی سیاسی کارکن کی موت کا الزام ہم پر لگاتے ہوئے ہماری ٹیم پر حملہ کر دیا تھا۔

سرجیکل یونٹ کے ایک سینئر رکن کو بھی شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ینگ ڈاکٹرز نے احتجاجی مظاہرہ کیا، اور او پی ڈیز میں کام چھوڑ بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا، اور یہاں تک کہ ہڑتال بھی کی گئی، مگر صرف عارضی سیکیورٹی کی گارنٹیاں دی گئیں۔ چند ماہ کے اندر ہی ایسے واقعات ایک بار پھر معمول کی بات بن گئے۔

سرکاری ہسپتالوں میں بہتریاں آنے لگی ہیں

تمام تر مایوس کن صورتحال کے باوجود بھی، گزشتہ چند سالوں کے دوران چند جگہوں پر کسی حد تک بہتریاں آنے لگی ہیں۔ ڈاؤ میڈیکل کالج کی الیومنائی نے اپنی گریجوئیشن کی سلور جوبلی کے موقع پر سول ہسپتال کراچی کو تحفوں کی صورت میں ایک عرصے سے مطلوب معاونت فراہم کی۔ ایسی چند غیر معمولی امداد میں ڈاؤ او ٹی کمپلیکس (بیچ 1978) اور سی ایچ کے سینٹرل لیبارٹری (بیچ 1983) شامل ہے۔

پڑھیے: کیا صحت کارڈ ہی مسائل کا حل ہے؟

پسپتال میں ایک اور حوصلہ بخش یونٹ بچوں کا ایمرجنسی ٹرائی ایج یونٹ (بیچ 1989) ہے جسے چائلڈ لائف فاؤنڈیشن چلاتا ہے۔ جب میں ڈاؤ میں طالب علم تھا، تب یہ عمارت ایک خستہ حال، گھپ اندھیری جگہ ہوا کرتی تھی جس میں بچوں کے امراض کا ایمرجنسی یونٹ اور اس کےساتھ ساتھ تھلسمیا ٹرانسفیوژن (انتقال خون) کا یونٹ قائم تھا۔ آج، نئے یونٹ میں جن بچوں کا علاج معالجہ کیا جاتا ہے ان کی زندگی بچنے کی توقع 15 فیصد سے بڑھ کر 70 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

حالیہ برسوں میں کراچی کے بڑے سرکاری ہسپتالوں کے کئی وارڈز میں سرکاری و نجی پارٹرنشپس بھی ہونا شروع ہوئی ہیں۔ یہ پارٹرنشپس وارڈز کو چلانے کے لیے ضروری فنڈز فراہم کرتی ہیں اور عملے کی تعیناتی میں سیاسی اثر کو بھی ختم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

ان ہسپتالوں میں علاج و معالجے کا معیار بہتر کرنے کے لیے بہتر انتظامیہ، نکاس آب، نظم و ضبط اور آپریشن کے بعد بہتر انداز میں خیال رکھنا ہوگا۔

سول ہسپتال میں موجود شہید محترمہ بینظیر بھٹو ٹراما سینٹر نے ہسپتال کے کئی ماہر امراض کے یونٹس کا بوجھ ہلکا کر دیا ہے۔ سینٹر، اگر خلوص دل سے چلایا جائے، تو سول ہسپتال میں لائے جانے والے متاثر افراد میں شرح اموات اور امراض میں بہتری آ سکتی ہے۔

نجی ہسپتال کبھی مفت نہیں ہوں گے

کراچی کے ایک سب سے مہنگے ہسپتال میں کام کرنے سے مجھے سفاک طبقاتی فرق اور صرف پیسوں کے عوض مہنگے علاج معالجے کے بارے میں پتہ چلا۔

نجی ہسپتالوں کے ایمرجنسی رومز صرف ان کے لیے دستیاب تھے جن کے پاس پیسے ہوتے۔ عملہ اس قدر تربیت یافتہ تھا کہ مریضوں کو دیکھ کر ہی پہچان لیتا تھا کہ کون مریض فیس ادا کر سکتا ہے اور کون نہیں، جو دولت مند نہیں لگتے تو ان سے بلا جھجھک پوچھ لیا جاتا تھا کہ آیا وہ علاج کا خرچہ برداشت کرنے کی استعداد رکھتے ہیں یا نہیں۔ اگر کوئی شخص فیس ادا نہیں کر پاتا تو انہیں ہسپتال سے چلے جانے کا کہا جاتا تھا۔

اگر کسی کو کم پیسوں پر علاج معالجہ فراہم بھی کرتے تو ان سے شناختی کارڈ جمع کر لیتے جو کہ بقیہ رقم جمع کروانے کے بعد ہی لوٹایا جاتا تھا۔ ایک مریض سے یہ پوچھنا کہ وہ علاج کا خرچہ برداشت کر سکتا ہے یا نہیں، انتہائی غیر اخلاقی عمل ہے، خاص طور پر ایمرجنسی کی صورت میں، کہ جب وہ انتہائی مشکل صورتحال سے گزر رہے ہوتے ہیں۔

اس مقصد کے لیے ہسپتال میں کسی قسم کے کوئی الگ سے خیراتی فنڈز مختص نہیں ہوتے اور ڈاکٹرز پر اکثر ایسے مریض کو کہیں اور بھیجنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے تا کہ وہ بیڈ کسی ایسے مریض کے لیے خالی کیا جاسکے جو فیس ادا کر سکتا ہو۔

پڑھیے: لاہور کے سرکاری ہسپتال میں میرے 10 تکلیف دہ دن

ایک بار ایمرجنسی روم میں ایک مریض آیا جس کے پیر میں گہری چوٹ لگی تھی اور خون بہہ رہا تھا، اسے ٹانکیں لگنے تھے۔ جب اس مریض کو استقبالیے سے ہی لوٹا دیا گیا تو ایک مریض کو دیکھنے کے لیے آئی ہوئیں خاتون یہ سارا منظر دیکھ کر انتہائی مایوس ہوئیں۔ انہوں نے فوراً اس شخص کے علاج کے لیے پیسے ادا کر دیے اور کسی دوسرے غریب مریض کی مدد کے لیے 1000 روپے مزید دیے۔ کیشیئر نے فوراً یہ کہتے ہوئے پیسے لوٹا دیے کہ ہسپتال میں اس طرح کا کوئی فنڈ موجود نہیں ہے جو غریبوں کی مدد کرے۔

ایک دوسرے دن، میرے پاس ایک زخمی ٹین ایج لڑکی لائی گئی، جو موٹرسائیکل سے گر پڑی تھی اور اس کے سر پر گہری چوٹیں لگی تھیں۔ اسے ایک راہ گیر لایا تھا جو جائے حادثہ کے وقت وہاں موجود تھا۔ میں اسے فوراً آپریشن تھیٹر لے گیا اور اس کا ابتدائی علاج کرنے لگا مگر عملہ مجھ پر اس لڑکی کو جناح ہسپتال (جے پی ایم سی) منتقل کروانے پر مسلسل دباؤ ڈالتا رہا۔

اسے سی ٹی اسکین کی ضرورت تھی، جس کے پیسے میں اپنی تنخواہ میں سے دینے کے لیے تیار تھا۔ مگر پھر کیا؟ عملے نے مجھ سے پوچھا کہ آیا متاثر لڑکی نیوروسرجن بلانے کا خرچہ ادا کر سکتی ہے یا نہیں۔

وہ بدقسمت مریض جو نجی ہسپتالوں میں علاج کروانے کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں وہاں محض علاج کروانے کے لیے بھی کئی قربانیاں دینی پڑتی ہیں— تصویر کری ایٹو کامنز
وہ بدقسمت مریض جو نجی ہسپتالوں میں علاج کروانے کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں وہاں محض علاج کروانے کے لیے بھی کئی قربانیاں دینی پڑتی ہیں— تصویر کری ایٹو کامنز

لڑکی ایک ٹین ایجر لڑکے کے ساتھ تھی جس نے اپنا تعارف لڑکی کے بھائی کے طور پر کروایا۔ وہ محض 13 برس کا تھا اور اس میں لڑکی کو کسی دوسرے ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ زخمی لڑکی کے والد کو پہنچنے میں پورے دو گھنٹے لگے، وہاں پہنچ کر وہ لڑکی کو دوسری ہسپتال لے گیا۔ اس حادثے نے مجھے سکھایا کہ بھلے ہی نجی ہسپتالیں اپنی 24 گھنٹے ایمرجنسی نگہداشت کا دکھاوا کریں مگر ان کی خدمات کبھی بھی قطعی طور پر مفت میں فراہم نہیں کی جاتیں۔

ایک شخص جس نے سب کچھ کھو دیا

ایسی ایک صورتحال میں نے ایک دوسرے نجی ہسپتال میں دیکھی، وہ بھی کراچی کے سب سے مقبول ترین اور معتبر ہسپتالوں میں سے ایک ہے۔ ایک نوجوان کو سول ہسپتال اور جے پی ایم سی کی جانب سے ہماری طرف بھیجا گیا تھا کیونکہ ان دونوں کے پاس وینٹیلیٹر والا بیڈ دستیاب نہیں تھا۔

مریض، جو امتحان دینے کے لیے موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ ایک تیز گاڑی سے تصادم ہو گیا۔ اس کے سر پر گہری چوٹیں آئی تھیں اور جسم کی مختلف ہڈیاں ٹوٹی تھیں۔ اس کے لاچار والد، جو کراچی کے باہر ایک گاؤں کے باسی تھے، نے مایوسی کی حالت سے دوچار اپنے بیٹے کو ہمارے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کروا دیا۔

داخل کرنے کے دوران مریض کی ٹانگ آئی سی یو سے ایک عام مگر مہلک انفیکشن کا شکار ہو گئی تھی جس کے لیے اس کی ٹانگ کاٹنی پڑی۔ 11 دنوں بعد اس نوجوان کی موت واقع ہو گئی اور اس کا والد 17 لاکھ روپے کا مقروض بن گیا۔

واجبات کی ادائیگی تک ہسپتال نے نوجوان کی لاش دینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اپنا چھوٹا پلاٹ بیچ دیا جہاں وہ رہتے تھے مگر پیسے پھر بھی کم تھے اس لیے اپنے دوست و احباب سے پیسے ادھار لیے۔ بقیہ 75 ہزار روپے کی ادائیگی کا بندوبست کرنے کے لیے اس نے اپنی آخری ملکیت، ایک اونٹ، کو بھی بیچ دیا۔ انہوں نے واجبات ادا کیے۔ انہوں نے اپنا ٹھکانہ، مویشی اور سب سے بڑھ کر اپنا بیٹا کھو دیا تھا۔

علاج معالجے کے بارے میں گفتگو کرتے وقت ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے ناقابل یقین حد تک انسان دوست کام کرنے والے ڈاکٹر کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا ناانصافی ہوگی، انہوں نے دنیا کے سامنے یہ ثابت کیا ہے کہ معیاری صحت کی سہولیات مفت میں بھی فراہم کی جا سکتی ہیں۔

سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) میں کوئی بھی وی آئی پی مریض نہیں ہوتے۔ کوئی بھی رشوت نہیں لیتا یا سفارشات نہیں چلتیں۔ ہر مریض کا پہلے آئیے پہلے علاج پائیے کی بنیاد پر علاج کیا جاتا ہے۔ داخلے سے لے کر ٹرانسپلانٹیشن اور مصنوعی علاج (امیونوتھیراپی) تک، سب کچھ مفت میں کیا جاتا ہے۔

انڈس ہسپتال بھی ایک ایسی ہی دوسری مثال ہے۔ پاکستان کا پہلا 'بے کاغذ' ہسپتال ہے، یہ منصوبہ ڈاکٹر عبدالباری خان کے وژن کا حصہ ہے، جو سول ہسپتال کراچی میں پیشنٹس ویلفیئر آرگنائزیشن یا تنظیم برائے بہبودِ مریض تشکیل دینے میں شامل کار رہے تھے۔

ایس آئی یو ٹی کے سربراہ ڈاکٹر ادیب رضوی، جو لاکھوں لوگوں کا مفت علاج کر چکے ہیں وہ اپنے ادارے میں ڈاکٹرز سے گفتگو کر رہے ہیں— تصویر ای ایف پی
ایس آئی یو ٹی کے سربراہ ڈاکٹر ادیب رضوی، جو لاکھوں لوگوں کا مفت علاج کر چکے ہیں وہ اپنے ادارے میں ڈاکٹرز سے گفتگو کر رہے ہیں— تصویر ای ایف پی

ایسے حوصلہ بخش افراد اور کئی دیگر ہسپتالیں، امداد دینے والے، انسان دوست اور سماجی کارکنان ہمارے شعبہ صحت کے نظام کا ایک ناگزیر سہارا ہیں۔ غربا کو جو بھی تھوڑی بہت مدد ملتی ہے وہ ان کے بغیر ممکن نہیں ہو گی۔

آخر میں، میں کہنا چاہوں گا کہ پاکستان کے پورے نظامِ صحت کو ڈاکٹر رضوی کے نصب العین پر چلنا چاہیے کہ،

"ہم انہیں محض اس وجہ سے مرنے نہیں دے سکتے کہ وہ خود کو زندہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔"

انگلش میں پڑھیں۔


جہانزیب آفندی کراچی میں مقیم میڈیکل ڈاکٹر اور فرسٹ رسپانس انیشی ایٹو آف پاکستان (ایف آر آئی پی) کے شریک بانی ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Jahanzebeffendi@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔