صبح کے 8 بجے ہیں اور لڑکوں نے مٹھی، تھرپارکر سے 6 کلومیٹر دور مالنہور وینا گاؤں کے گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول میں اسمبلی کے لیے قطاریں بنانا شروع کردی ہیں۔ وہ جیسے ہی چند منٹوں کی جسمانی کسرت شروع کرتے ہیں تب سفید اور نیلے یونیفارمز میں ملبوس لڑکیاں بھی وہاں پہنچنا شروع ہو جاتی ہیں۔ کچھ لڑکیاں جوڑیاں بنا کر تو کچھ گروپس کی صورت میں اسکول کے اندر داخل ہوتی جاتی ہیں۔ وہ لڑکوں کے برابر میں قطار بناتی ہیں اور پھر ان کے ساتھ مل کر قومی ترانہ گاتی ہیں۔

مالنہور وینا 250 گھرانوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جہاں ریت کے ٹیلوں پر سرکنڈوں سے بنے گھر اور جنگلی درخت پھیلے نظر آتے ہیں۔ گاؤں میں صرف ایک ہی ہائی اسکول ہے قائم ہے جو صرف لڑکوں کے لیے ہے۔ تاہم، اسکول میں گاؤں کی وہ ایک سو لڑکیاں بھی آتی ہیں جو اعلٰی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس کام کے پیچھے مقامی برادری کی کوششوں کے سوائے وہاں زیر تعلیم لڑکیاں ایک حوصلہ بخش شخصیت سے جذباتی حد تک متاثر ہیں، وہ شخصیت ہے درشنا نامی ایک لڑکی۔

گزشتہ برس جب میں تھرپارکر میں ایک اسائنمنٹ پر کام کر رہا تھا تب مجھے اس ضلعے میں واقع اس اسکول کے بارے میں قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ کمیونٹی بنیادوں پر چلنے والے اسکولوں، جہاں تعلیم مقامی برادری کے لیے بڑی ترجیح ہے، کی تلاش کے دوران ہی میرے دوست پرتاب شیوانی، جو ایک مقامی کارکن ہیں، مجھے اپنے گاؤں لے گئے جہاں لڑکیوں کے لیے علیحدہ کوئی اسکول نہیں لیکن مقامی برادری کی کوششوں کے باعث والدین اپنی بچیوں کو لڑکوں کے ہائی اسکول بھیج کر تعلیم سے آراستہ کر پا رہے ہیں۔ اس کوشش میں ٹیچرز اور والدین دونوں نے مساوی کردار ادا کیا ہے۔

ایک حوصلہ افزا والد کے باہمت قدم اٹھانے سے ہی لڑکوں کے اسکول میں لڑکیوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔

9 ویں جماعت کی 15 سالہ طالبہ ودھیا مجھے بتاتی ہیں کہ روزانہ اسکول آنے کا حوصلہ اسے درشنا نامی لڑکی سے ہی ملتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ "ہم نے اپنے ٹیچرز اور والدین سے درشنا کے بارے میں کئی کہانیاں سن رکھی ہیں۔ وہ ایک ذہین طالبہ تھی جو ایسے وقت میں اسکول آیا کرتی تھی جب دوسری لڑکیاں ایسا کرنے سے قاصر تھیں۔ اسکول کی لائبریری کا نام درشنا پر رکھا گیا ہے۔ کئی لڑکیوں کے لیے، وہ ایک بہادر اور ذہین ہیرو کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگرچہ ودھیا نے کبھی درشنا کو دیکھا نہیں ہے لیکن وہ اس کے بارے میں سب کچھ جانتی ہے۔ کیوں نہ ہو، آخر درشنا گاؤں کی ہر ایک لڑکی کے دل میں جو بستی ہے۔

چند برس قبل، درشنا کے والد سومار مل اسی ہائی اسکول میں ٹیچر تھے۔ سومار چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی پانچویں کے بعد بھی اپنی تعلیم جاری رکھے لیکن وسائل کی کمی کے باعث وہ اپنی بیٹی کو مٹھی بھیجنے سے قاصر تھے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو لڑکوں کے ہائی اسکول لانے اور لڑکوں کے ساتھ تعلیم دلوانے کا فیصلہ کیا۔ سومار کہتے ہیں کہ، "ایسا کرنے والا میں اکیلا نہیں تھا، میرے کلیگ کارومل بھی اپنی بیٹی مینا کماری کو اپنے ساتھ روزانہ اسکول لاتے تھے۔"

سومار اور کارومل دونوں مقامی برادری کے ریت و رواجوں کے خلاف اپنے ساتھ اپنی بیٹیوں کو اسکول لاتے تھے۔ سومار کہتے ہیں کہ، "اسی برادری کا حصہ ہونے کے ناطے، ہم نے اپنے لوگوں کو تعلیم کی اہمیت اور اپنی بچیوں کو اسکول لانے کے بارے میں قائل کرنا پڑا، یوں ہم نے ایک مثال قائم کرنے کی کوشش کی."

سومار دیگر والدین اور درشنا کی دوستوں کو اسکول آنے کے لیے قائل کرنے کی خاطر درشنا کے ساتھ گاؤں کے ایک سے دوسرے گھر گئے۔ ستمبر 2006 میں جب درشنا 8 ویں جماعت میں تھی تب اسے ایک سانپ نے کاٹ لیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ تعلیم سے پختہ وابستگی کے عوض اسکول کی انتظامی کمیٹی نے دسمبر 2006 میں اسکول کی لائبریری کا نام درشنا کے نام رکھنے کا فیصلہ کیا۔ لڑکوں کے اسکول میں یہ واحد کمرہ ہے جو ایک لڑکی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ لائبریری ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں کمپیوٹرز ہیں اور ایک چھوٹی لوہے کی الماری رکھی ہے جس میں چند سائنس جبکہ باقی بچوں کی کہانیوں کے کتاب موجود ہیں۔

چونکہ یہاں کوئی کالیج قائم نہیں لہٰذا 10 ویں جماعت تک تعلیم مکمل کر لینے کے بعد ودھیا گاؤں سے باہر جا کر اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جب اسکول کا وقت ختم ہوتا ہے تو لڑکیاں لڑکوں سے پہلے گھر کا رخ کرتی ہیں۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر پریم پرمپرھیار کہتے ہیں کہ"چونکہ والدین نہیں چاہتے کہ لڑکے برادری میں لڑکیوں کے لیے کسی قسم کی مشکل پیدا کریں، اسی لیے ہمیں لڑکیوں کو گھر جلدی بھیجنا پڑتا ہے۔ ہم برادری کے خدشات کا احترام کرتے ہیں، کیونکہ اگر ہم ان کے مسائل کا خیال نہیں رکھیں گے تو وہ اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنا چھوڑ دیں گے۔"

گاؤں میں لڑکیوں کا اسکول نہ ہونے یا قدامت پسند ذہنیت کی حامل برداری کی وجہ سندھ میں لڑکیوں کی نصف تعداد اعلٰی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتیں۔ گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول مالنہور وینا بچوں، خصوصاً اپنی لڑکیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے برادری اور ٹیچرز کی دلچسپی اور وابستگی کا ایک مثال ہے۔ بھلے ہی برادری گاؤں میں لڑکیوں کے لیے علیحدہ ہائی اسکول قائم کرنے کی اب بھی جدوجہد کر رہی ہے، مگر ایک بات تو صاف ہے کہ درشنا کا نام گاؤں کی ہر لڑکی کے دل پر لکھا ہوا ہے۔

یہ مضمون 28 مئی 2017 کو ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں