برطانیہ عام انتخابات: کنزرویٹو جماعت اکثریت کھو بیٹھی

اپ ڈیٹ 09 جون 2017
برطانوی وزیراعظم نے رواں سال اپریل میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تھا—فوٹو: اے ایف پی
برطانوی وزیراعظم نے رواں سال اپریل میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تھا—فوٹو: اے ایف پی

لندن: برطانیہ کے قبل از وقت ہونے والے عام انتخابات میں موجودہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی کنزرویٹو جماعت اپنی اکثریت کھو بیٹھی جس کے بعد برطانوی پارلیمان کی صورتحال معلق دکھائی دیتی ہے۔

جمعرات (8 جون) کے روز ہونے والی پولنگ کے نتائج سامنے آنے کے بعد کنزرویٹو اب بھی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت ہے تاہم وہ پارلیمان میں سادہ اکثریت کے حصول میں کامیاب نہ ہوسکی جبکہ اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی واضح برتری کے بعد زائد نشستیں حاصل کرنے والی دوسری جماعت ہے۔

کنزرویٹو کی اکثریت میں کمی کو وزیراعظم تھریسا مے کے لیے خفت قرار دیا جارہا ہے جو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے حوالے سے مذاکرات شروع کرنے سے قبل اپنے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے پرامید تھیں۔

توقع کے برخلاف ان نتائج کے بعد لیبر پارٹی کے رہنما جریمی کوربائن نے برطانوی وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کردیا جس پر تھریسا مے کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت برطانیہ کا استحکام 'یقینی' بنائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں عام انتخابات کیلئے پولنگ

برطانیہ میں موجود حلقوں کی تعداد 650 ہے اور پارلیمنٹ کے ایوان زیریں ہاؤس آف کامن میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے 326 ارکان کا جیتنا ضروری ہے۔

اب تک کے نتائج کے مطابق کنزرویٹو کو 318 نشستوں پر جیت ہوئی ہے جبکہ لیبر پارٹی 261 نشستیں حاصل کرچکی ہے۔

سروے رپورٹس کے مطابق رواں برس انتخابات میں تقریباً چار کروڑ 70 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا تھا۔

رواں سال اپریل میں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کا اعلان کردیا تھا۔

واضح رہے کہ تھریسا مے برطانیہ کی وزیر داخلہ تھیں، جس کے بعد جون 2016 میں بریگزٹ کے حوالے سے ریفرنڈم میں شکست کے بعد ڈیوڈ کیمرون کے مستعفی ہونے پر انہیں وزیراعظم بنایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا 2 سالہ عمل شروع

وزیراعظم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ تھریسا مے کو اس فیصلے میں اہم وزراء کی حمایت حاصل ہے اور انہوں نے ملکہ الزبتھ کو بھی اس فیصلے سے آگاہ کردیا۔

یاد رہے کہ 29 مارچ کو تھریسامے نے برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء کا عمل شروع کرنے کے لیے یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک کو خط لکھا تھا جس کے بعد بریگزٹ کا دو سالہ عمل باضابطہ طور پر شروع ہوگیا۔

وزیراعظم تھریسا مے نے آئین کے آرٹیکل 50 کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے بریگزٹ کا عمل شروع کیا تھا اور خط میں برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین کو باضابطہ طور پر مطلع کیا گیا تھا کہ برطانیہ واقعی یورپی بلاک سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتا ہے جس میں وہ 1973 میں شامل ہوا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں