پاکستانی ٹیم کو صرف انہی لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ: وہ جنون کے سے انداز میں کھیلے۔ بدھ کے روز کارڈف کے میدان میں منعقد چیمپئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں فیورٹ قرار دی جانی والی ٹیم انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی شاندار فتح نے پاکستانی ٹیم کو ٹورنامنٹ کی 20 سالہ تاریخ میں پہلی بار فائنل تک رسائی دلوا دی۔

8 مضبوط ٹیموں کے درمیان سب سے آخری نمبر رہنے والی ٹیم نے اس میگا ایونٹ کے فائنل میں اپنی جگہ بنا لی ہے. پاکستان نے اس ٹورنامنٹ میں ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کی مثالیں ملکی 65 سالہ کرکٹ تاریخ میں بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔

برسوں سے پاکستانی کھلاڑیوں کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ان کے بارے میں کوئی پیش گوئی ممکن نہیں؛ درحقیقت، ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے بڑے بڑے ایونٹس میں اکثر اہم میچوں میں شکست کی وجہ ان پر موجود یہ چھاپ ہی ہے.

گزشتہ ہفتے جنوبی افریقہ کے خلاف برسات سے متاثر میچ میں، پھر پیر کو سری لنکا کے خلاف مشکل فتح پر بھی یہی کہا جاتا رہا؛ زیادہ تر نقاد اس بات پر قائل تھے کہ پاکستان کی ڈانواڈول دوڑ کا اختتام سیمی فائنل میں ناقابل شکست انگلینڈ کے خلاف میچ میں ہو ہی جائے گا۔

کارڈف کے میدان میں پہلی گیند سے آخری گیند تک سرفراز اور اس کے پھرتیلے کھلاڑی بے رحمانہ طور پر میچ پر غالب رہے، یوں ایسا میچ کھیل کر پاکستانی ٹیم نے تمام قسم کے شکوک و شبہات کا خاتمہ کر دیا۔

سرفراز خود کو ایک بہادر کپتان ثابت کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ قیادت کے اپنے جارحانہ انداز اور اپنے کھلاڑیوں پر مکمل اعتماد کے ساتھ وہ اب تک کھلاڑیوں میں لڑنے کا کھویا ہوا جذبہ بحال کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

اس کے ساتھ، نڈر اوپنر بلے باز فخر زمان اور نوجوان پیسر حسن علی نے ٹیم کی کارکردگی بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر برمنگھم میں ہندوستان کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد۔

فائنل میں ہندوستان جیسا بڑا خطرہ اب بھی منڈلا رہا ہے۔ انگلینڈ کے خلاف زبردست فتح، سرفراز کی ہر طرح سے مؤثر قیادت اور فخر اور حسن کی کارکردگی کے باوجود بھی پاکستان کو اپنے روایتی حریف، جسے حالیہ مقابلوں میں ایک واضح برتری حاصل رہی ہے، سے مقابلے میں چوکس رہنا ہوگا۔

تجزیہ نگار اس مقابلے کو نفسیاتی عناصر سے مشروط کر چکے ہیں، پاکستانی ٹیم خود اعتمادی کو بحال نہیں رکھ پاتی اور یوں ان کا فوکس کھو جاتا ہے۔

امید ہے کہ اتوار کو یہ بات غلط ثابت ہوگی۔

یہ اداریہ 16 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں