یاسر نواز کی فلم 'مہر النساءوی لب یو' عید الفطر پر ریلیز ہونے والی فلم ہے جس میں دانش تیمور اور ثناءجاوید نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔

فلم کی کہانی میں دانش تیمور کو علی کے کردار میں دکھایا گیا ہے جو کہ تین سال چین میں رہنے کے بعد کراچی واپس آتا ہے اور اپنے بچپن کے پیار مہرالنساء(ثناءجاوید)سے شادی کا فیصلہ کرتا ہے جو کہ شمالی علاقہ جات میں مقیم ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں : 'مہر النساء وی لب یو': کامیڈی فلم کا رومانوی ٹیزر

شادی کے بعد علی مہرالنساءکو کراچی واپس لاتا ہے جہاں باقی فلمو کو شوٹ کیا گیا ہے۔

مہرالنساءیا مہرو چونکہ صاف ستھرے پہاڑی علاقوں میں رہنے کے عادی ہوتی ہے تو اس کے لیے کراچی میں زندگی سے مطابقت پیدا کرنا ممکن نہیں ہوتا، خصوصاً اس کا محلہ جو اذیت ناک حد تک گندہ اور پرہجوم ہوتا ہے، جس کے باعث وہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہے۔

علی کو بھی احساس ہوتا ہے کہ اس کے محلے میں زندگی کچھ زیادہ ہی غیرمنظم ہے اور مہرالنساءکے ساتھ رشتہ برقرار رکھنے کے لیے تبدیلی لانا ہوگی، تو وہ اپنے محلے کو صاف کرنے کے مشن کا بیڑہ اٹھاتا ہے۔

دوسری جانب ایک کرپٹ سیاستدان علاقے کے رہائشیوں سے ان کے گھر خریدنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ منافع کماسکے۔

تو یہ کہانی کا پلاٹ ہے جو کہ فیملی عید فلم کے حوالے سے سادہ اور اچھا لگتا ہے، مگر کیا واقعی ایسا ہے ؟

یہ بھی پڑھیں : 'رونگ نمبر' والی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، یاسر

تو سینما میں جانے سے پہلے یہ جان لینا چاہیے۔

مہر النساءکا کردار نہ ہونے کے برابر

ویسے تو پوری فلم ہی مہرو کے گرد گھومتی ہے، یعنی مہرو سے محبت، مہرو کے لیے دنیا کو بہتر مقام بنانا اور بہت کچھ، مگر مہرالنساءکی اپنی ذات کے بارے میں بہت کم بتایا گیا ہے۔

مہرالنساءکا کردار شروع سے آخر تک یکساں ہے جس میں کسی قسم کی ڈویلپمنٹ نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں پوری فلم غیر حقیقی سے ہوکر رہ گئی ہے۔

مہرو ایک دھیمے مزاج کی ڈرپوک لڑکی ہے جو کہ اکثر افراد ہوتے ہیں، ایک ایسا شخص جو ڈرپوک ہو اور بہت پرسکون علاقے سے کراچی آیا ہو، اس کے لیے یہ سمجھنا قابل فہم ہے کہ یہاں قیام غیر اطمینان بخش ہوگا، اور کچھ مناظر میں یہ دیکھنے میں اچھا بھی لگتا ہے۔مگر مہرو کے کردار کو نہ بنانے اور حد سے زیادہ بھول پن کو دکھانے پر دل کرتا ہے کہ اسے پکڑیں اور کچھ فہم اس کے دماغ میں ڈال دیں۔

صفائی اور مغربی سوچ کو یکساں کردینا

جب علی اپنے پڑوسیوں کو زیادہ صاف ستھرے اور بااصول رہائشی بننے پر قائل کرلیتا ہے، تو وہ لوگ ایسے سوٹ اور ملبوسات پہننے لگتے ہیں جو کہ یورپین تعطیلات میں ہی پہنتے ہیں، جبکہ کراچی کے متوسط طبقے کے علاقوں میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ اس بات کو سراہا جانا چاہیے کہ فلم میں صفائی اور شہری ذمہ داریوں کی جانب توجہ دلائی گئی ہے، مگر ہم اب بھی ہر چیز کو 'گوروں' سے کیوں ملا دیتے ہیں۔

ہمارے لیے تشویش کا امر یہ ہے کہ اس طرح یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ 'میلا ہونا' ایک دیسی خامی ہے، ہم جینز پہننا پسند کرتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کرتے میلے ہوتے ہیں۔

دانش تیمور کی بہت زیادہ جیکٹیں

دانش تیمور فلم میں کسی ماڈل کی طرح نظر آئیں جو ہر شوٹ کے لیے تیار ہوتا ہے اور کسی بھی طرح کراچی سے باہر نکلنے والا نوجوان نہیں لگتا۔

انہوں نے ہر شاٹ میں مختلف جیکٹس کو پہنا، یقیناً لوگ جیکٹیں پہننا پسند کرتے ہیں، مگر یہ کراچی ہے اور یہ واضح ہے کہ فلم میں سردیوں کا موسم نہیں دکھایا گیا تو آخر علی ونٹر فیشن کی نمائش کیوں کرتا نظر آیا؟

باپ بننے پر آئٹم نمبر

ویسے تو پاکستانی سینما میں اب آئٹم نمبر کوئی نئی چیز نہیں رہے مگر اس فلم میں اس کی موجودگی کی وجہ کسی طرح سمجھ نہیں آتی۔

اس گانے سے پہلے مہر النساءاپنے حاملہ ہونے کی خبر علی کو بتاتی ہے جس کے بعد علی اپنے گھر والوں کو یہ خوشخبری دیتا ہے، جو کہ معمول کا حصہ ہے، مگر یہ ناقابل فہم ہے کہ اس خوشخبری کا جشن ایک آئٹم نمبر کے ساتھ منایا جائے، جہاں شوہر بیوی کی بجائے کسی اور خاتون کے ساتھ رقص کرتا نظر آتا ہے، ایسا کبھی کہیں اور دیکھا جاسکتا ہے ؟

بھدے پن تک پہنچا ہوا مزاح

اس فلم کے اسکرپٹ میں ہر اس لمحے میں مذاق کو شامل کیا گیا، جس میں اسے شامل کیا جاسکتا ہے، جبکہ بیشتر مناظر میں اس کے لیے کوئی جگہ بنتی نہیں تھی، تو متعدد مذاق کو زبردستی ان میں ڈال دیا گیا اور وہ کسی بھی طرح پرمزاح نہیں تھا بلکہ غیراطمینان بخش تھا۔

ویسے تو مزاح ہر کسی کو پسند ہوتا ہے مگر بھدے پن کی حد تک مزاح مختلف ہوتا ہے، خصوصاً ایسی فلم میں، جس میں صفائی کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہو۔

اداکاری پر ملی جلی رائے

فلم میں اداکاروں کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ اچھے رہے یا نہیں، کیونکہ اس میں پہلوﺅں کا خیال رکھنا ہوگا، ہم ثناءجاوید کی اداکاری کے بارے میں اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتے، کیونکہ کردار اور اسکرپٹ نے انہیں اپنی صلاحیت دکھانے کا زیادہ موقع نہیں۔

دانش تیمور فلم میں ہر جگہ چھائے رہے اور رونے کی صلاحیت نے تو دنگ کردیا، یقین کریں، فلم کے دوسرے ہاف میں ان کی آنکھیں آنسوﺅں سے تر ہی نظر آئیں، بہترین دوست کا کردار ثاقب سمیر نے ادا کیا جو کہ فلم کے اسکرپٹ رائٹر بھی ہیں، مگر اداکاری میں مار کھا گئے، سمیر نے اپنے والد کا کردار بھی کیا، ایسا کردار جس میں بہت زیادہ اسکوپ تھا مگر اسے دیکھنا زیادہ اچھا نہیں رہا۔

حیران کن طور پر جو لوگ لیڈ میں نہیں تھے، انہوں نے زیادہ اچھا کام کیا، جاوید شیخ اور ارشد مراد کی اداکاری دل جیت لینے والی ہے، نیئر اعجاز بھی محدود اسکرپٹ کا ایک اور شکار بنے، مگر پھر بھی انہوں نے بیشتر کاسٹ کو اپنی اچھی اداکاری کی بدولت پیچھے چھوڑ دیا۔

مجموعی طور پر مہر النساءوی لب یو میں ایک اچھی چیز کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر خامیوں نے اسے دبا دیا۔ اچھے اسکرپٹ اور ڈائریکشن کے ساتھ اس تصور کو زیادہ اچھے طریقے سے لوگوں کے سامنے لایا جاسکتا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

ارم صدیقی Jun 29, 2017 02:13pm
کیا گانے ، نامناسب رقص،نازیبا لباس خواتین کےبغیر کامیاب فلمیں نہیں بن سکتی ؟ہمارے فلم سازوں کو ایرانی فلمیں دیکھنا چاہیے جو ان خرافات سے پاک ہونے کے باوجود آسکر حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہیں۔