اسلام آباد: پاناما پیپرز کے دعوؤں سے متعلق شریف خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے گذشتہ روز جمع کرائی گئی چوتھی اور حتمی رپورٹ کے بعد اپوزیشن نے حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم نواز شریف کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرلیا۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما خورشید شاہ، اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) شاہ محمود قریشی کے درمیان آج (11 جولائی) کو اہم ملاقات ہوئی، جس میں جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد وزیراعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبے پر بات چیت کی گئی۔

اس ملاقات میں شیریں مزاری اور شفقت محمود بھی موجود تھے۔

خورشید شاہ اور شاہ محمود قریشی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ پر اظہار خیال کیا گیا اور دونوں رہنماؤں کا ماننا تھا کہ وزیراعظم کے مستعفی ہوجانے سے جمہوری نظام کو کوئی خطرہ نہیں۔

اس ملاقات میں وزیراعظم نواز شریف پر استعفی کے لیے پارلیمنٹ میں دباؤ بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے ملاقات کے بعد پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر پیپلز پارٹی کی من و عن وہی رائے ہے جو پی ٹی آئی کی ہے۔

مزید پڑھیں: جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا بیان بھی سامنے آچکا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد نوازشریف، سیاسی اور اخلاقی جواز کھو چکے ہیں اور ہم دونوں جماعتوں کا یہی نکتہ نظر ہے کہ نوازشریف کو فی الفور وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوجانا چاہیے۔

پی ٹی آئی کے رہنما نے بتایا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ریکوزیشن کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے اور قومی اسمبلی اجلاس بلانے کا مقصد نوازشریف کو اپنا قول یاد کرانا ہے۔

انہوں نے وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے کہا تھا کہ تحقیقات اگر میرے خلاف آئیں تو استعفی دے دوں گا، ’اب وہ لمحہ آگیا ہے جس کا نواز شریف نے کہا تھا‘۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کا مستعفی ہونا جمہوریت کے تسلسل اور ان کی جماعت کے لیے فائدہ مند ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے ہم دیگر اپوزیشن جماعتوں سے بھی رابطہ کریں گے۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے حکم پر شریف خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ارکان نے واجد ضیاء کی سربراہی میں گذشتہ روز (10 جولائی) کو عدالت عظمیٰ میں پیش ہوکر جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں 3 رکنی عمل درآمد بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق جس وقت جے آئی ٹی کے ارکان سپریم کورٹ پہنچے تو ان کے ساتھ دو باکسز میں 11 جلدوں پر مشتمل ثبوت بھی کمرہ عدالت میں لے جائے گئے جن پر لفظ ’ثبوت‘ تحریر تھا۔

سماعت کے دوران ایک موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ ریکارڈ ٹیمپرنگ کا کیا ہوا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی اے نے چیئرمین ایس ای سی پی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ ایس ای سی پی کے چیئرمین ظفر حجازی کے خلاف آج ہی ایف آئی آر درج ہونی چاہیے اور یہ بھی سامنے آنا چاہیے کہ کس کے کہنے پر ریکارڈ میں ردو بدل کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ درج

اس کے بعد سپریم کورٹ نے چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا حکم جاری کردیا۔

اس کے علاوہ عدالت نے وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی فوٹو لیک کے معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو اس معاملے میں ملوث شخص کے خلاف کارروائی کی اجازت دی۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے غلط رپورٹنگ کرنے پر جنگ گروپ کے پبلشر، ایڈیٹر اور پرنٹر کے نام طلب کرتے ہوئے جنگ گروپ، رپورٹر احمد نورانی اور میر جاوید الرحمٰن کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں