’غیرت‘ کے نام پر قتل، خواتین کا پیار اور ہمارا معاشرہ

24 جولائ 2017
ڈرامہ 24 جولائی سے نشر ہوگا—اسکرین شاٹ
ڈرامہ 24 جولائی سے نشر ہوگا—اسکرین شاٹ

پاکستان کے کئی گھروں میں خواتین کی جانب سے اپنی مرضی کا ہمسفر منتخب کرنا اب بھی ممنوع سمجھا جاتا ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ نوجوان لڑکی کی جانب سے محبت میں دلچسپی رکھنا باعث شرم ہوتا ہے، اور اگر ایسے گھرانوں میں خواتین سے یہ گناہ سرزد ہوجائے تو گھر والے انہیں کسی مرد کے ساتھ ’غیرت‘ کے نام پر قتل کردیتے ہیں۔

ایسے خاندانوں کی حالت کیا ہوتی ہے، جب اہل خانہ کا کوئی فرد دوسرے فرد کو قتل کرتا ہے؟ اس ماں کی حالت کیا ہوتی ہوگی، جس کا بیٹا اس کے سامنے اس کی بیٹی اور اپنی بہن کو ماردیتا ہے۔

ان عورتوں پر کیا گزرتی ہوگی جو اپنے بھائی کی جانب سے اپنی دوسری بہن کو زندہ آگ میں جلاتے ہوئے دیکھتی ہوں گی؟

نجی ٹی وی چینل اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامے ’غیرت‘ میں بھی ایسے ہی موضوعات کو چھیڑا گیا ہے، جس میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والے واقعات سمیت ان خاندان کے افراد کی زندگی کو بھرپور انداز میں دکھایا گیا ہے، جو اپنے پیاروں کو پیار کے جرم میں قتل ہوتا دیکھتے ہیں۔

غیرت کی کہانی

ڈرامہ سیریل غیرت کی کہانی صبا نامی لڑکی کے ارد گرد گھومتی ہے، جو قدرے پابندیوں والی اور پدرانہ طرز زندگی گزارتی ہیں، جو آگے چل کے اپنی بڑی بہن اقراء کی دوست کو ہمراز بناتی ہیں۔

ڈرامے میں اہم موڑ اس وقت آتا ہے، جب صبا کا بڑا بھائی عثمان ’غیرت‘ کے نام پر اقراء کو زندہ جلا دیتا ہے۔

صبا جو اپنے بڑے بھائی عثمان کی بہت عزت کرتی ہیں، جب وہ خود اپنے ہی بھائی کی جانب سے اپنی ہی بڑی بہن کو زندہ جلاتے ہوئے دیکھتی ہے تو اس کو سوچ بدل جاتی ہے، اور اس کے نظریات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

ڈرامے میں اور بھی ایسی ہی کئی کہانیاں ہیں، جو غیرت کے نام پر قتل اور ایسے واقعات سے متاثر ہونے والے خاندانوں کی داستانوں کو بیان کرتی ہیں۔

کاسٹ

ڈرامے میں صبا کا کردار اقراء عزیز نے جب کہ ان کی بڑی بہن اقراء کا کردار جنان حسین نے ادا کیا ہے، ان کے بھائی کا کردار سید جبران ادا کرتے نظر آئیں گے۔

ڈرامے کی ہدایات عبداللہ سیجا نے دی ہیں، جب کہ ڈرامہ 24 جولائی سے رات 8 بجے سے اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر ہوگا۔

خواتین کو ہی عزت سمجھ کر قتل کرنے کو سمجھنا مشکل

ڈرامے کی کہانی، ملک میں غیرت کے نام پر قتل اور خواتین پر تشدد کے حوالے سے ڈان امیجز سے بات کرتے ہوئے اداکارہ اقراء عزیز کا کہنا تھا کہ اس بات کو سمجھنا بہت بڑا مشکل ہے کہ آخر صرف ایک عورت کو ہی کیوں عزت سمجھ کر قتل کیا جاتا ہے، یا اس کے کسی عمل کو عزت خراب کرنے سے مشابہ دی جاتی ہے؟۔

ان کے مطابق اگر کہیں کوئی عورت ایسی سوچ کا مقابلہ کرتی ہے، تو مرد اسے قتل کردیتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ لڑکی کی جانب بارہویں تک پڑھنے کے بعد کئی خاندانوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ لڑکی کی شادی کرالیں، چاہے پھر وہ لڑکیاں شہر کے ایک بہترین کالج میں پڑھتی ہوں یا ان کا تعلق اچھے گھرانے سے ہی کیوں نہ ہو، مگر ان پر دباؤ رہتا ہے۔

فیمنزم کے حوالے سے بات کرتے اقراء عزیز نے کہا کہ لوگ فیمنزم کا مطلب ہی نہیں سمجھتے بس فیمنزم کا لیبل لگ جانے سے ہی ہچکچاتے ہیں، وہ اس کے نظریے کو مکمل طور پر نہیں سمجھتے۔

ڈرامے میں ولن کا رول کرنے والے سید جبران کا کہنا تھا کہ وہ خیبرپختونخوا کے ضلع مردان میں پیدا ہوئے، اور وہیں پلے بڑھے، اس لیے وہ غیرت کے نام پر ہونے والی قتل و غارت اور ایسے واقعات سے متاثر ہونے والے خاندانوں سے متعلق اچھی طرح واقف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے ڈرامے میں اپنے کردار کو حقیقت سے قریب تر کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

تبصرے (0) بند ہیں