وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پاناما لیکس عملدرآمد کیس کا کوئی بھی فیصلہ آنے پر وزارت اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ’آج کی پریس کانفرنس سے متعلق کسی کو اطلاع نہیں دی، یہ پریس کانفرنس وبال جان بن گئی تھی، آج زندگی کی مشکل پریس کانفرنس ہے جس میں سوالات کے جوابات نہیں دوں گا اور چند دنوں بعد میڈیا سے کھل کر بات کروں گا۔‘

’کسی سے ناراض نہیں ہوں‘

انہوں نے کہا کہ ’کابینہ کے اجلاس میں بہت سی باتیں کیں، کابینہ میں کی گئی کچھ باتیں غلط رپورٹ ہوئیں، میں کسی سے ناراض نہیں ہوں، نواز شریف اور پارٹی کے لیے اپنی ذات ایک طرف رکھ کر خدمت کی، پارٹی اور قیادت پر مشکل وقت ہے، ایسے وقت میں پارٹی سے کیوں الگ ہوں گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’33 سال سے پارٹی کے ہر اجلاس میں شریک ہوتا ہوں، لیکن گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران اہم اجلاس میں نہیں بلایا گیا اور میں بن بلائے کسی اجلاس میں نہیں جاتا۔‘

یہ بھی پڑھیں: چوہدری نثار کو پارٹی مشاورت سے الگ کیوں کیا گیا؟

وزیر داخلہ نے کہا کہ ’میں نے کوئی ٹرین مس نہیں کی، کسی آوارہ ٹرین کا مسافر نہیں ہوں، پریس کانفرنس سے پہلے شہباز شریف، اسحٰق ڈار اور سعد رفیق نے رابطہ کیا، اتوار اور پیر کی پریس کانفرنس میں بڑا اعلان کرنا تھا، اعلان تجزیوں کے مطابق ہوتا۔‘

’پارٹی کے بانی اراکین میں شامل ہوں‘

انہوں نے کہا کہ ’1985 میں جو لوگ پارٹی بنانے میں نواز شریف کے ساتھ تھے ان میں صرف میں بچا ہوں، باقی سب لوگ یا تو پارٹی چھوڑ گئے یا دنیا چھوڑ گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مخالفین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ چوہدری نثار پارٹی نہیں چھوڑ سکتا، تمام عمر پارٹی قیادت کے سامنے سچ کہا ہے، لیکن جب مشکل ترین وقت آیا تو پھر سازش چلی اور مجھے مشاورتی عمل سے بھی الگ کر دیا گیا، کچھ لوگ دیکھ رہے تھے کہ جگہ خالی ہو جائے تو ہمارا راستہ بن جائے، حکمراں سے اصل وفاداری تو یہ ہے کہ انہیں حقیقت کے بارے میں بتایا جائے اور میاں صاحب نے بھی کہا کہ نہیں آپ اچھا کرتے ہیں، میں نے وزیر اعظم سے کہا آپ نے دوسروں کی باتیں کیوں سنیں، آپ مجھے بلا کر پوچھ لیتے لیکن جب حالات نہیں سنبھلے تو ایک انتہائی فیصلہ کیا۔‘

’سیاست سے دل اچاٹ ہوگیا‘

انہوں نے کہا کہ ’اس وقت صورتحال بہت گھمبیر ہے اور سیاست سے میرا دل اچاٹ ہو گیا ہے، لہٰذا جس دن سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا چاہے وہ حق میں آئے یا مخالفت میں، میں وزارت سے بھی استعفیٰ دوں گا اور اسمبلی کی رکنیت سے بھی اور آئندہ الیکشن میں حصہ نہیں لوں گا۔‘

مزید پڑھیں: جلد معلوم ہوجائے گا کہ چوہدری نثار کیا چاہتے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اب وضاحتیں دیتے دیتے تھک گیا ہوں، سازش میرے خمیر اور خون میں شامل نہیں، عہدوں پر رہنے کا کوئی شوق نہیں، عزت کے لیے سیاست کی لیکن اب یہ عذاب بن گئی ہے، اس وقت پارٹی میں جو کچھ ہورہا ہے وہ مسلم لیگ (ن) کا کلچر نہیں ہے، پریس کانفرنس کے بعد وزیر اعظم سے ضرور ملوں گا، خدانخواستہ فیصلہ خلاف بھی آیا تو بھی وزیر اعظم سے ملوں گا اور اگر فیصلہ خلاف آیا تو وزیر اعظم کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا رہوں گا اور انہیں صبر کا مشورہ دوں گا۔‘

’ملک شدید خطرات سے دوچار ہے‘

وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک شدید خطرات سے دوچار ہے اور اس بارے میں صرف پانچ لوگ جانتے ہیں کہ ہمیں گھیرے میں لیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں صرف اپنا تحفظ نہیں کرنا بلکہ ملک کا تحفظ کرنا ہے۔

انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا سے درخواست کی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کریں خواہ وہ کسی کے حق میں ہو یا برخلاف، عدالتی فیصلہ قبول نہ کرنے کا مطلب جنگل کا قانون ہے، قوم نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے، ہمیں اداروں سے ہم آہنگی رکھنی ہے اور پارٹی کو قائم رکھنا ہے۔

’سول بالادستی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا‘

وزیر داخلہ نے کہا کہ میرا خاندانی پس منظر فوجی ہے جس پر مجھے فخر ہے، میرے دادا اور والد فوج میں تھے، بھائی سمیت کئی عزیز رشتہ دار فوج میں رہے اور ہیں، ہمیشہ کوشش کی کہ فوج اور سویلین میں ہم آہنگی ہو، اسی میں ملک کی بہتری ہے لیکن میں نے کبھی سویلین اتھارٹی پر سمجھوتہ نہیں کیا، اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ جنرل اسلم بیگ نے خلیج جنگ کے حوالے سے بیان دیا، اس کا میں نے سخت جواب دیا، ان سے اچھے تعلقات تھے اور ہیں لیکن اس بیان کی وجہ سے ان سے دو تین سال تعلقات میں کشیدگی رہی اور بول چال بھی بند رہی۔ جنرل آصف نواز سے خاندانی تعلقات تھے انہوں نے مینڈیٹ کیخلاف کارروائی کی میں اتنا سخت بولا کہ بول چال ہی بند ہو گئی، میں نے ایسا اپنی ذات کیلئے نہیں کیا، میں نوازشریف اور حکومت کیلئے بولا تھا۔

وزیر داخلہ نے مزید بتایا کہ جنرل مشرف کو کرنل کے زمانے سے جانتا تھا لیکن جب انہوں نے ہماری حکومت کا تختہ الٹا تو ان سے دشمنی کی حد تک مخالفت ہوئی، اس کے بعد جنرل کیانی، جنرل راحیل سمیت ہر دور میں، میں نے اپنی قیادت کو مقدم جانا اور اپنی حکومت کی پوزیشن پر سمجھوتہ نہیں کیا، میں نے اپنی ذات کیلئے یہ نہیں کیا لیکن جو میری فوج سے قربت کی بات کرتے ہیں ان کو کوئی چپ نہیں کراتا، سٹوریز لیک کرائی جاتی ہیں، میں نے کبھی اپنی قیادت کی پوزیشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

وزیر اعظم کو اہم مشورہ

چوہدری نثار نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حق میں آیا تو وزیراعظم کو اردگرد موجود لوگ سر قلم کرنے کے مشورے دیں گے لیکن وزیراعظم سے کہتا ہوں کہ وہ عجز و انکساری سے فیصلہ قبول کریں اور معاف کرنے اور بھول جانے کی بات کریں۔

تاہم انہوں نے ساتھ ساتھ کہا کہ اگر فیصلہ خلاف آیا تو قوم نے نوازشریف کو بہت کچھ دیا ہے، مشکل وقت میں وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں وہ اس پارٹی کو قائم دائم رکھیں جو بہت بڑا سیاسی اثاثہ ہے، میں پچھلی صفوں میں رہ کر ان کے ساتھ ہوں گا۔

خیال رہے کہ اس سے پہلے چوہدری نثار کو 23 جولائی کو پریس کانفرنس کرنا تھی، مگر طبیعت میں ناسازی کی وجہ سے انہوں نے پریس کانفرنس ملتوی کردی تھی۔

چوہدری نثار کی پریس کانفرنس سے پہلے ہی چہ مگوئیاں عروج پر تھیں کہ وزیر داخلہ، مسلم لیگ (ن) سے اپنی 33 سالہ رفاقت ختم کرنے جارہے ہیں، تاہم وزارت داخلہ کی جانب سے چوہدری نثار کے نام سے منسوب جاری ہونے والے بیانات میں ایسی چہ مگوئیوں کو مسترد کیا جاتا رہا۔

یہ چہ مگوئیاں اس وقت ہونا شروع ہوئیں جب پاناما لیکس سے متعلق سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ محفوظ کیے جانے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے 13 جولائی کو کابینہ کا اجلاس ہوا، جس کے دوران چوہدری نثار کے اٹھ کر چلے جانے کی خبریں سامنے آئیں۔

وزیر داخلہ کی جانب سے دوران اجلاس اٹھ کر چلے جانے کے بعد یہ خبریں آئیں کہ وہ پارٹی قیادت سے ناراض ہیں، اور پارٹی کو خیر آباد کہنے کا سوچ رہے ہیں۔

تاہم وزارت داخلہ نے 14 جولائی کو جاری بیان میں کہا کہ 'وزیر داخلہ گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس کو ادھورا چھوڑ کر چلے گئے تھے اور نہ ہی اجلاس کے دوران کوئی تلخ کلامی ہوئی تھی۔‘

ترجمان وزارت داخلہ نے میڈیا پر زور دیا کہ وہ وفاقی وزیرکے حوالے سے 'غیر منطقی قیاس آرائیوں اور غیرحقیقی بیانات' سے گریز کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میڈیا کے ایک حلقے نے اس حوالے سے بے بنیاد خبریں چلائیں۔‘

کابینہ اجلاس کے دوران اٹھ کر چلے جانے والی خبر کے بعد اگلے روز مسلم لیگ (ن) پارلیمانی اجلاس میں بھی چوہدری نثار نے شرکت نہیں کی تھی۔

پارلیمانی اجلاس میں چوہدری نثار کی عدم شرکت پر بھی وزارت داخلہ کی جانب سے وضاحتی بیان جاری کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: یقین دہائی کے بعد چوہدری نثارکاحکومت سےاختلافات منظرعام پر نہ لانےکا امکان

بیان کے مطابق 'چوہدری نثارذاتی مصروفیات کے باعث جماعت کے پارلیمانی اجلاس میں شرکت نہیں کرسکے اور یہ پہلی مرتبہ نہیں ہورہا اس لیے اس پر قیاس آرائیاں نہیں ہونی چاہئیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ چوہدری نثار اگلے چند روز میں میڈیا کے سامنے اپنا نقطہ نظر رکھیں گے۔

چوہدری نثار کی جانب سے 27 جولائی کو کی گئی پریس کانفرنس کے بعد سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں کی جانب سے ملے جلے تبصرے سامنے آئے۔

زیادہ تر تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں کے خیال میں چوہدری نثار کی پریس کانفرنس لچکدار تھی، انہوں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا جو حکومت کے لیے زیادہ نقصان دہ ہو۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Jul 27, 2017 11:36pm
میں سمجھتا ھوں کہ اب جبکہ پارٹی پر سخت وقت اگیا ھے چودھری نثار کی یہ حرکت قطعی مناسب نہیں پاکستان جیسے روایت پسند معاشرے میں اس روئے کو کوئی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھے گا باوجود اسکے کہ شاید نثار صاحب کے گلے شکوے درست ھوں لیکن اس کے باوجود عوام چودھری نثار کے اس قدم کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھنگے