لاہور: سپریم کورٹ کے حکم پر شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) میں ریفرنسز کی نگرانی کے لیے عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس اعجازالاحسن کی تعیناتی کو چیلنج کردیا گیا۔

شریف خاندان کی جانب سے بیرسٹر ظفر اللہ خان نے سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں دائر درخواست میں کہا کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے پاناما پیپرز کیس میں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ ٹرائل کے دوران قانونی جواز کے بغیر دیا گیا، جس کی وجہ سے فیصلے کے معتبر ہونے اور اداروں کے درمیان طاقت کے توازن پر سوال اٹھ رہے ہیں۔

شریف خاندان نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر سپریم کورٹ کے ججز مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) سے نیب اور احتساب عدالت تک کے عمل کی نگرانی کریں گے تو آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل ممکن نہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے لوئر کورٹ کی نگرانی کی صورت میں ٹرائل کا سامنا کرنے والی پارٹی متاثر ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا

بیرسٹر ظفر اللہ نے نشاندہی کی کہ ماضی میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ سپریم کورٹ نے کسی مخصوص کیس میں لوئر کورٹ میں جاری ٹرائل کی نگرانی کی ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیب آرڈیننس میں کوئی ایسی شق موجود نہیں جو اعلیٰ عدالت کی جانب سے احتساب عدالت کی سماعت کی نگرانی کے حوالے سے ہو۔

بیرسٹر ظفر اللہ خان نے مؤقف اختیار کیا کہ ملک میں جمہوریت اور آئین یا اداروں کے چیک اینڈ بیلنس کے حوالے سے بدقسمتی سے پاکستانی عدلیہ کی شاندار تاریخ نہیں۔

یہ بھی پڑھین: پاناما فیصلے پر عملدرآمد کیلئے جسٹس اعجاز الاحسن نگراں جج مقرر

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس کی نگرانی کے لیے جسٹس اعجاز الاحسن کی تعیناتی کو ختم کریں اور آئین کے آرٹیکل 10 اے کی خلاف وزری سے گریز کریں۔

انہوں نے عدالت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ نواز شریف کو دیگر کیسز کی طرح آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت اپیل کا حق بھی دیا جائے۔


یہ رپورٹ 8 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں