’اس وقت پاکستان میں کوئی فلم اسٹار موجود نہیں‘

11 اگست 2017
پاکستانی فلم ساز سید نور — فائل فوٹو
پاکستانی فلم ساز سید نور — فائل فوٹو

پاکستانی ہدایت کار سید نور اس وقت اپنی فلم ’چین آئے نہ‘ کے ساتھ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں واپسی اختیار کرنے جارہے ہیں۔

اس فلم کو پروموشن کے مرحلے میں شائقین کی شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، فلم کی کاسٹ میں شہروز سبزواری، سارش خان اور عادل مراد شامل ہیں، جنہوں نے تنقید کے باوجود اب تک اس فلم کوسپورٹ کیا ہے۔

اور اب سید نور کی باری ہے۔

ڈان نے سید نور سے ان کی فلم ’چین آئے نہ‘ کو ملنے والی تنقید اور پاکستانی فلم صنعت میں تقسیم کے حوالے سے بات کی۔

ڈان: ایک ہدایت کار ہونے کی حیثیت سے آپ ’چین آئے نہ‘ کے حوالے سے بتائیں، آپ شائقین کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟

سید نور: دیکھیں ایک فلم صرف پیغام دینے کے حوالے سے نہیں بنائی جاتی، فلم کا مقصد انٹرٹین کرنا ہوتا ہے، میری فلموں میں سب سے اہم چیز ہمیشہ میوزک رہا ہے، میری فلمیں سینما میں 5 سالوں تک دکھائی گئیں، جس کی وجہ ان کا میوزک تھا، جیون، سرگم، گھونگھٹ اور چوڑیاں یہ سب بہترین میوزک کے ساتھ بنائی گئیں۔

مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس وقت پاکستان میں بننے والی تمام فلمیں مغربی انداز کی ہیں یا وہ ہولی وڈ کی نقل کررہے ہیں یا بولی وڈ کی، جن میں اب کوئی خاص موسیقی پیش نہیں کی جاتی، اب بولی وڈ کی 'پاکیزہ'، 'قیامت سے قیامت تک'، 'دل والے دلہنیا لے جائیں گے'، جیسی فلمیں نہیں، اسی طرح پاکستان میں بھی فلم ساز میوزک کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔

تو فلم ’چین آئے نہ' کے ساتھ میں پاکستان میں وہ موسیقی واپس لا رہا ہوں جو اب لوگ نہیں سُن رہے۔

ڈان: تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ پاکستانی سینما میں پُرانے میوزک کی کمی ہے؟

سید نور: کچھ لوگوں نے کہا کہ 'چین آئے نہ' 90 کی دہائی کی فلم لگ رہی ہے اور میں فخریہ انداز میں کہہ سکتا ہوں کہ ہاں ایسا ہی ہے، وہ ہی اصل سینما تھا، لوگ ہال میں بیٹھتے اور میوزک پسند کرتے تھے، ہماری فلم میں مہندی کا گانا، رومانوی گانے موجود ہیں، یہ فلم مکمل طور پر رومانوی کہانی پر مبنی ہے۔

فلم میں کوئی گندے ڈائیلاگ نہیں، نہ ہی کوئی غلیظ بات ہے، میں اپنے لیے خود ہی سنسر ہوں، آج تک میری کسی فلم میں سنسر بورڈ نے سین کٹ کرنے کا نہیں کہا، میں تین بیٹیوں کا والد ہوں اور جب بھی میں فلم بناتا ہوں میں یہی سوچتا ہوں کہ کہیں فلم مجھے میری بیٹیوں کے آگے شرمندہ نہ کرے۔

ڈان: فلم 'چین آئے نہ' کی کاسٹ میں دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ تمام اداکار فلمی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، شہروز سبزواری بہروز سبزواری کے بیٹے ہیں، سارش صبیحہ خانم کی نواسی ہیں اور عادل مراد وحید مراد کے بیٹے ہیں، کیا یہ کاسٹنگ جان بوجھ کر کی گئی؟

سید نور: 'چین آئے نہ' کو بنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے لیجنڈز جو ہمارے درمیان موجود ہیں، ان کو کوئی اب فلموں میں کاسٹ نہیں کرتا، اگر ہندوستان کی بات کی جائے (کیوں کہ ہم ہمیشہ اپنا مقابلہ اُن سے کرتے ہیں) تو ان کی انڈسٹری کا تعلق ان کی میراث ہے، ان کی دوسری، تیسری نسلیں فلم انڈسٹری کے مرکزی اداکار ہیں جو انڈسٹری کو لیڈ کررہے ہیں، لیکن یہاں ایسا نہیں، اس لیے میں یہ ٹرینڈ یہاں بھی لانا چاہتا ہوں۔

مستقبل کی تمام فلموں میں، میں ایسے ہی اداکاروں کے ساتھ کام کروں گا، مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ یہ فلمیں کتنا بزنس کریں گی، میں نے یہ فلم بنائی ہے اور میں آگے بھی فلمیں بناتا رہوں گا کیوں کہ مجھے کچھ اور کرنا نہیں آتا۔

ڈان: کوئی آپ سے کچھ اور کام کرنے کی امید کیوں کرے گا؟

سید نور: جب میں پنجاب سے کراچی آیا تو مجھے بےحد افسوس ہوا، پنجاب میں ہمیشہ کراچی سے آنے والے بھائیوں اور دوستوں کو ویلکم کیا جاتا ہے، لیکن جب میں کراچی آیا تو مجھے بہت تعصّب کا سامنا کرنا پڑا۔

میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میرا ٹریلر ریلیز ہوگا تو لوگ اس کے خلاف منفی انداز میں بات کریں گے، کچھ لوگوں نے سامنے آکر اسے خراب کہا لیکن ان کا کیا جو خاموش رہے اور ٹریلر کے بارے میں انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا؟ یہ اور بھی بُری بات تھی۔

جب کراچی کی ایک فلم ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کا ٹریلر ریلیز ہوا تو سب نے اس کی کامیابی کے لیے دعائیں دی، لیکن میری فلم پر کسی نے مجھے ایسی دعا نہیں دی اور اس بات سے اندازہ ہوگیا کہ وہ میری فلم کو پسند نہیں کررہے، ان کے لیے میرے فلم ساز ہونے کے 47 سال اہم نہیں، جبکہ میں ان کے 2 یا 3 سالوں کے تجربے کو بھی اہمیت دیتا ہوں۔

ڈان: کیا آپ کو واقعی ایسا لگتا ہے کہ 'چین آئے نہ' کے ٹریلر کو ملنے والا منفی ردعمل صرف لاہور اور کراچی کی تفریق کی وجہ سے ہے؟

سید نور: لوگ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ کراچی اور لاہور میں فرق ہے، لیکن میں اس پر یقین نہیں کرتا تھا، لیکن اب مجھے احساس ہورہا ہے کہ شاید وہ ٹھیک تھے۔

لیکن فلم پر ملنے والا ردعمل لاہور/ کراچی کی وجہ سے نہیں، اگر ابتداء میں ملنے والی رائے حقیقی ہوتی تو وہ ابھی تک ہوتی۔

ڈان: آپ کی رائے میں فلم پر ہونے والی تنقید کم ہے؟

سید نور: یہ ختم ہوچکی ہے، یوٹیوب کو دیکھیں، 100 میں سے ایک کمنٹ بھی میرے یا میری فلم کے خلاف نہیں، کیوں کہ یہی شائقین ہیں، وہ تجزیہ کار تو منصوبہ بندی کے تحت آئے۔

لیکن مجھے فرق نہیں پڑتا، میں خوش ہوں کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ میرے دوست کون ہیں اور کون نہیں۔

ڈان: کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری میں منافقت ہے؟

سید نور: ہماری فلم انڈسٹری ایسی کبھی نہیں تھی، وحید مراد، ندیم، کمال، محمد علی، زیبا، دیبا، پرویز ملک کراچی سے کامیاب ہوئے لیکن وہ بعد میں لاہور منتقل ہوگئے۔

تو اگر آج سب کچھ تبدیل ہورہا ہے اور انڈسٹری کراچی سے واپس اٹھ رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب ان لوگوں کو بھول جائیں جنہوں نے انڈسٹری بنائی، میں نے 47 سال کام کیا، 300 اسکرین پلے لکھے، 55 فلموں کی ہدایات دیں اور اس سب کے بعد میرے ساتھ ایسا سلوک کیا جارہا ہے، میرے دوست تک مجھے ’گڈ لک‘ کا میسج نہیں کرتے، نہ ہی یہ کہتے ہیں کہ فیڈ بیک کی پرواہ نہ کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان تجزیہ کاروں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، لیکن مجھے کوئی شکایت نہیں۔

ڈان: آپ نے کہا کہ ٹریلر پر مثبت ردعمل بھی ملا، یقیناً ان میں سے کچھ آپ کے دوست ہوں گے؟

سید نور: وہ سب انجان لوگ ہیں، جو فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں، میں نہیں جانتا وہ کون ہیں، لیکن میرے خیال سے وہ مجھے جانتے ہیں، عوام مجھے اصل فلم مین مانتی ہے، مجھے ستارہ امتیاز سے نوازا گیا، میں مطمئن ہوں۔

ڈان: یقیناً آپ 'چین آئے نہ' کے ساتھ کوئی مثال قائم کرنا چھا رہے ہوں گے؟

سید نور: میں نئے اور تجربہ کار دونوں طرح کے ٹیلنٹ کو کاسٹ کرنا چاہتا تھا، میں نے دیکھا ہے کہ نوجوان کراچی میں ٹی وی پر کام کررہے ہیں، لیکن لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت پاکستان میں کوئی فلم اسٹار موجود نہیں۔

ڈان: یہ ایک سنجیدہ بیان ہے، آج کل فواد خان کافی مقبول ہیں، ماہرہ خان کے بھی کافی مداح ہیں۔

سید نور: اسٹار وہ ہے جسے اسکرین پر دیکھنے کے لیے لڑکیاں اور لڑکے انتظار کریں، ہاں فواد خان اس کی ایک مثال ہیں، لیکن میں کسی پاکستانی اداکارہ کو فلم اسٹار نہیں مانتا اور فواد خان تو پاکستان میں کام نہیں کررہے۔

ڈان: فواد خان نے بہت سی فلموں میں کام کرنے کی حامی بھر رکھی ہے۔

سید نور: فواد خان کو زیادہ سے زیادہ اپنے ملک کے لیے کام کرنا چاہیے، کیوں کہ ان میں وہ بات ہے جو فلم اسٹار جیسی ہو، لیکن ابھی بھی شان، معمر رانا، ارباز خان اور بابر علی جیسے اسٹار نہیں، میں جونیئرز کی بات کررہا ہوں، سینئرز میں وحید مراد جیسا کوئی نہیں۔

باقی جو تمام ہیروز ہیں وہ ٹی وی اداکار ہیں۔

ڈان: بہت سارے اداکاروں نے فلموں میں بھی ڈیبیو کرلیا، آپ کو ایسا کوئی نظر نہیں آیا جس نے آپ کو متاثر کیا ہو؟

سید نور: ایک فلم اسٹار وہ ہوتا ہے جو ناظرین کو ریلیز کے پہلے ہفتے میں سینما تک لے آئے، فلم تو پھر بعد میں چلتی ہے، پہلے تو لوگ ہیرو ہیروئن کو دیکھنے جاتے ہیں، میری آج کل کے برائے نام ہیرو ہیروئنز سے زیادہ اہمیت ہے۔

اس لیے ہمیں سپر اسٹارز بنانے چاہئیں، جب وہ بنیں گے تو انڈسٹری چلے گی، اس وقت کوئی سپر اسٹار موجود نہیں، ہمارے پاس صرف اسٹارز ہیں ٹی وی اسٹارز۔

ڈان: مجھے آپ کی بات سُن کر بہت حیرانی ہورہی ہے، اب تک کوئی وحید مراد جتنا ٹیلنٹڈ نہیں آیا اور آپ کے خیال میں فواد خان نے بھی اب تک خود کو نہیں منوایا، لیکن ایسے بہت سے اسٹارز ہیں جن کے ڈرامے دیکھنے کے بعد شائقین ان کی ڈیبیو فلم دیکھنے سینما آئے، جیسے سجل اور فیروز۔۔۔۔

سید نور: میں نہیں جانتا ان لوگوں نے کس فلم میں کام کیا، یہ کتنے عرصے چلی؟ کچھ ہفتے؟ صاف ظاہر ہے شائقین انہیں دیکھنے نہیں گئے۔

سید نور کی فلم ’چین آئے نہ‘ آج یعنی 11 اگست کو سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Naeem Aug 11, 2017 11:12pm
Fantastic movie and could be more better if fawad and mahira cost as hero and heroin. Good story . syed noor commint are better. He should make their way i think with these kinds of movies.