ن لیگ کے نئے پارٹی سربراہ کا فیصلہ نہ ہوسکا، ناموں پر غور جاری

اپ ڈیٹ 16 اگست 2017
نواز شریف کی زیرِ صدارت مسلم لیگ (ن) کا اہم مشاورتی اجلاس رائیونڈ میں ہوا—فوٹو: آن لائن
نواز شریف کی زیرِ صدارت مسلم لیگ (ن) کا اہم مشاورتی اجلاس رائیونڈ میں ہوا—فوٹو: آن لائن

لاہور: سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی قیادت تاحال پارٹی کے لیے نئے سربراہ کا فیصلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی بطور وزیراعظم نااہلی کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے مسلم لیگ (ن) کو پارٹی کا نیا صدر منتخب کرکے کمیشن کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

منگل (15 اگست) کو رائیونڈ میں واقع ذاتی رہائش گاہ پر نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے مشاورتی اجلاس میں پارٹی رہنماؤں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ جی ٹی روڈ ریلی کے دوران کارکنان کے والہانہ خیرمقدم کے بعد عوامی اجتماعات اور جلسوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

مشاورتی اجلاس میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف، وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ، رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز، سینیٹر پرویز رشید، انوشہ رحمٰن، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق انسپکٹر جنرل رانا مقبول نے شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کو پاکستان مسلم لیگ نواز کا صدر بنانے کا فیصلہ

اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے کہا کہ 'ہم نے نئے پارٹی سربراہ کے لیے موجود تمام آپشنز پر غور کیا لیکن کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکے، اس معاملے کے حوالے سے متعدد قانونی اور سیاسی پیچیدگیوں کو دیکھتے ہوئے مزید چند دن جلد بازی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے'۔

گورنر پنجاب نے اجلاس کی مزید تفصیلات کا ذکر کرنے سے گریز کیا تاہم ذرائع کے مطابق پارٹی سربراہ کے لیے شہباز شریف کے علاوہ کسی نئے چہرے پر غور کیا جارہا ہے تاکہ وزیراعلیٰ پنجاب کی توجہ پنجاب کے اہم ترقیاتی منصوبوں کی جانب برقرار رہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے پارٹی چیئرمین راجا ظفرالحق نے کہا تھا کہ ن لیگ کے نئے صدر کے لیے شہباز شریف کا نام حتمی کیا جاچکا ہے اور آئندہ چند روز میں اس کا باقاعدہ اعلان کردیا جائے گا۔

یہ بھی یاد رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم کے عہدے کے لیے بھی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو نامزد کیا گیا تھا جبکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے شہباز شریف کے منتخب ہو کر قومی اسمبلی آنے تک وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھالنی تھیں تاہم یہ پلان اُس وقت تبدیل کردیا گیا جب چند پارٹی رہنماؤں نے موجودہ سیاسی منظرنامے میں 'غیر ضروری' چھیڑچھاڑ کی مخالفت کی۔

ن لیگ کے ایک پارٹی عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ سابق خاتون اول کلثوم نواز پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اگلی صدر ہوسکتی ہیں جبکہ این اے 120 کے ضمنی الیکشن کے لیے ان کے کاغذات نامزدگی کلیئرنس کے منتظر ہیں۔

واضح رہے کہ مخالف امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے بعد کلثوم نواز کو آج (16 اگست) کے روز رٹرننگ افسر کے سامنے پیش ہونا ہے۔

دوسری جانب ن لیگ کو ای سی پی کے نوٹس کے مطابق 25 اگست تک پارٹی کے نئے صدر کا انتخاب کرنا ہے ورنہ این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں ن لیگ کی امیدوار کو پارٹی کا انتخابی نشان 'ٹائیگر' الاٹ نہیں کیا جائے گا۔

28 جولائی کو سامنے آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد 7 اگست کو الیکشن کمیشن نے ن لیگ کو ہدایت کی تھی کہ وہ پارٹی کے نئے سربراہ کا انتخاب کریں، کیونکہ انتخابی قوانین کے مطابق پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل قرار دیا جانے والا شخص پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔

ادھر مسلم لیگ (ن) کے پارٹی آئین کے تحت بھی صدر کا عہدہ ایک ہفتے سے زائد خالی نہیں رہ سکتا۔

عوام سے رابطہ

دوسری جانب رفیق رجوانہ کا کہنا تھا کہ پارٹی نے مزید عوامی رابطہ جلسے اور اجتماعات کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اس حوالے سے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جارہا ہے اور جلد ہی ان ریلیوں اور جلوسوں کا شیڈول جاری کردیا جائے گا۔

مشاورتی اجلاس میں شریک ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اجلاس کے شرکاء اس بات پر تقسیم رہے کہ نواز شریف کو عوامی اجتماعات میں خطاب کرنا چاہیے یا جی ٹی روڈ ریلی کی طرح مختلف شہروں میں ریلیاں نکالنی چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فیصل آباد کے رہنما اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ نواز شریف کو پہلے ان کے شہر کا رخ کرنا چاہیے، جہاں ان کا استقبال لاہور کی نسبت زیادہ جوش و خروش سے کیا جاتا۔

ایک سوال کے جواب میں رفیق رجوانہ نے اس خیال کی تردید کی کہ عوامی جلوسوں اور اجتماعات کے معاملے پر پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں کسی قسم کے اختلافات پائے جاتے ہیں۔


یہ خبر 16 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں