امریکا کی نئی افغان پالیسی کے اعلان سے ناراض پاکستان کو امریکی حکام نے مزید خبردار کیا ہے کہ وہ افغانستان کے دہشت گرد گروپوں کو محفوظ پناہ گاہیں دینے کا عمل جاری رکھنے کے باعث فوجی اتحادی ہونے کا استحقاق کھو سکتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان کو کابل حکومت سے مذاکرات میں شرکت سے متعلق دباؤ ڈالنے کے لیے نئی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد اعلیٰ سفارتی حکام نے اسلام آباد پر مزید دباؤ ڈالا ہے۔

گذشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی مبینہ حمایت کے باعث پاکستان کو نتائج کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے اور بعد ازاں ان لفاظ کی تشریح سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نے کی۔

انہوں نے ٹرمپ کی تقریر کی تشریح کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ ’ہمیں امداد کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں، ان کے غیر نیٹو اتحادی ہونے کی حیثیت میں، اور ان سب پر بات کرنا ہوگی‘۔

مزید پڑھیں: ’امریکا غلط دعوے کے بجائے دہشتگردی کےخلاف پاکستان کا ساتھ دے‘

پاکستان امریکا کے 16 ’غیر نیٹو اہم اتحادیوں‘ میں شامل ہے اور اربوں ڈالر کی امداد حاصل کررہا ہے جبکہ اسے امریکی فوجی ٹیکنالوجی تک رسائی بھی حاصل ہے جس کے استعمال پر دیگر ممالک پر پابندی عائد ہے۔

رواں سال امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی 35 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد روک دی تھی، لیکن اتحاد پر سوال نہیں اٹھایا گیا تھا۔

ٹلرسن کا کہنا تھا کہ واشنگٹن پاکستان کے ساتھ کام کرنے کا خواہاں ہے جیسا کہ اس نے طالبان کے خلاف کابل حکومت کے حوالے سے اپنی حمایت میں اضافہ کیا ہے، لیکن ساتھ ہی خبردار کیا اور دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں دینے کا الزام بھی لگایا۔

واشنگٹن میں موجود پاکستان پر تنقید کرنے والوں نے ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ مزید اقدامات کریں، جیسا کہ امریکی انتظامیہ کو پاکستان میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر فضائی حملے یا پاکستان کو ’دہشت گرد اسپانسر ریاست‘ قرار دیا جائے، تاہم ٹریلسن نے فضائی کارروائیوں کا امکان کو مسترد نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کے الزامات:چین کا پاکستان کی بھر پورحمایت کے عزم کا اعادہ

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت سے قبل ان کے پیش رو باراک اوباما کے دور حکومت میں امریکی فضائیہ پاکستان میں متعدد ٹارگٹس کو نشانہ بناتی رہی ہے جیسا کہ امریکا کی خصوصی فورسز نے ایبٹ آباد میں ایک کارروائی کے دوران القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا تھا۔

ٹلرسن کا کہنا تھا کہ ’صدر نے واضح کیا ہے کہ ہم دہشت گردوں پر ہر اس جگہ حملہ کرنے جارہے ہیں یہاں انہیں پناہ دی جائے گی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے لوگوں کو پیغام دیا ہے کہ اگر آپ نے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں دی تو ہم خبردار کرتے ہیں کہ ہم ان پناہ گاہوں پر حملہ کریں گے اور انہیں روکیں گئے جو وہ کررہے ہیں‘۔

ٹلرسن کا کہنا تھا کہ افغانستان کے علاوہ پاکستان کو بہت کچھ کرنا ہے’دیگر قوموں سے زائد‘ تاکہ لڑائی کو ختم کیا جاسکے۔

امریکا کے صدر اور اسٹیٹ سیکریٹری نے پاکستان کے حریف اور خطے میں دوسری جوہری قوت بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان میں اپنا کردار بڑھائے، جس نے اسلام آباد کی تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: نئی افغان پالیسی: ٹرمپ کا پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینےکاالزام

اس کے علاوہ امریکا کی افغانستان پر نئی حکمت عملی میں امریکی جنرلز کو اختیار دیا گیا ہے کہ گذشتہ 16 سال سے جاری جنگ میں افغانستان کی حکومت کی مزید مدد اور حمایت کے لیے وہ امریکا کے اضافی فوج دستوں کو تعینات کرسکتے ہیں۔

ادھر پاکستان کے دفتر خارجہ نے امریکا کی نئی افغان پالیسی سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے الزامات کی تردید کی ہے۔

دفتر خارجہ کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پالیسی کے تحت پاکستان اپنی زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا، امریکا کو پاکستان پر محفوظ پناہ گاہیں دینے کا الزام لگانے کے بجائے اسے پاکستان کے ساتھ ملک کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کام کرنا چاہیے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں