اسلام آباد: چیف کمشنر شماریات آصف باجوہ نے حالیہ مردم شماری پر اٹھنے والے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ مردم شماری میں ایک ایک فرد کی تصدیق کی گئی۔

سینیٹ کی کمیٹی برائے نجکاری اورشماریات ڈویژن کو بریفنگ دیتے ہوئے چیف کمشنر نے دعویٰ کیا کہ فوج نے مردم شماری کی ساکھ، شفافیت اور سیکیورٹی کے لیے معاونت فراہم کی اور شماریات ڈویژن اور فوج کے پاس موجود مردم شماری کے ریکارڈ میں فرق نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ نے مطالبہ کیا تھا کہ محکمہ شماریات اور پاکستان آرمی کی جانب سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کا موازنہ کیا جائے تاکہ مردم شماری کے نتائج کی حقیقی تصویر سامنے آسکے۔

چیف کمشنر شماریات آصف باجوہ کے مطابق مردم شماری میں ہر ایک فرد کی تصدیق کی گئی اور انسانوں کی گنتی کے دوران 20 فیصد افراد کے شناختی کارڈ کی نادرا سے تصدیق بھی کرائی گئی۔

آصف باجوہ نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ پورے لاہور ضلع کو اربن (شہری) ڈکلیئر کردیا گیا تھا جبکہ کراچی کے 2 اضلاع تاحال رورل (دیہات) ہیں، یہی وجہ ہے کہ اربنائزیشن کے باعث آبادی کم ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعجاز دھمرا نے بھی مردم شماری کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کراچی اور لاہور کی آبادی میں زیادہ فرق نہیں جو کہ ممکن نہیں ہوسکتا۔

مزید پڑھیں: مردم شماری کے عبوری نتائج پر اپوزیشن جماعتوں کے اعتراضات

آصف باجوہ نے خواجہ سراؤں کے اعداد و شمار پر اعتراضات بھی مسترد کردیئے اور کہا کہ 'مردم شماری میں خود کو خواجہ سرا ظاہر کرنے والوں کو ہی گنا گیا، عملے نے گھروں کے باہر جاکر خود عدالت نہیں لگائی، نہ ہی کسی کی شکل و صورت پر شک کرکے اس کو خواجہ سرا قرار دینے کہ کوشش کی'، ان کا مزید کہنا تھا کہ 'خود کو خواجہ سرا قرار دینے کے لیے کسی پر دباؤ نہیں ڈالا گیا'۔

حالیہ مردم شماری کے عبوری نتائج کے مطابق ملک میں موجود مخنث افراد کی کل تعداد محض 10 ہزار 418 ہے، جس کا سب سے زیادہ 64.4 فیصد حصہ پنجاب میں ہے، جہاں مخنث برادری کے 6 ہزار 709 افراد موجود ہے۔

خواجہ سراؤں کی آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا صوبہ سندھ ہے جہاں 10 ہزار 418 افراد کا 24 فیصد حصہ یعنی 2 ہزار 527 مخنث افراد موجود ہیں، جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بالترتیب 913 اور 109 خواجہ سرا موجود ہیں۔

وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں خواجہ سرا آبادی صرف 27 نفوس پر مشتمل ہے جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں یہ تعداد 133 ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد کتنی؟

آصف باجوہ نے بتایا کہ مردم شماری پر 17 ارب روپے کے اخراجات آئے جبکہ مردم شماری کی حتمی رپورٹ اپریل 2018 کے آخر تک تیار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

چیف کمشنر شماریات آصف باجوہ نے بتایا کہ مردم شماری میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو نہیں گنا گیا، ملک میں رہنے والوں کو ہی گنا گیا۔

کمیٹی ارکان کا کہنا تھا کہ مردم شماری پر اعتراضات دور کرنے کی ضرورت ہے جبکہ سینیٹر سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ مردم شماری میں آبادی بڑھنے کے بجائے کم ہونا کسی معجزے سے کم نہیں۔

رواں ماہ 25 اگست کو محکمہ شماریات نے پاکستان کی چھٹی مردم شماری کے عبوری نتائج جاری کیے تھے، جس کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار 520 نفوس پر مشتمل ہے جس میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے نتائج شامل نہیں ہیں۔

تاہم اپوزیشن جماعتوں نے مردم شماری کے نتائج پر اعتراضات اٹھادیے تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں سینئر رہنما خورشید شاہ نے مطالبہ کیا تھا کہ محکمہ شماریات اور پاکستان آرمی کی جانب سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کا موازنہ کیا جائے تاکہ مردم شماری کے نتائج کی حقیقی تصویر سامنے آسکے۔

مزید پڑھیں: سندھ حکومت نے مردم شماری کے نتائج مسترد کردیئے

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت نے شماریات کے اس عمل پر محض رسمی طور پر کام کیا اور جس طرح مردم شماری کی گئی اس سے کوئی بھی مطمئن نہیں ہے۔

دوسری جانب سندھ حکومت نے بھی چھٹی مردم شماری کے عبوری نتائج کو مسترد کر دیا اور سینئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے اپنے بیان میں الزام لگایا کہ وفاق نے مردم شماری کے نتائج کو راز میں رکھ کر سندھ کے ساتھ سازش کی۔

انہوں نے کہا کہ انسانوں اور گھروں کی گنتی کے دوران پیپلز پارٹی کے خدشات دور نہیں کیے گئے، جبکہ منصوبہ بندی کے تحت سندھ کی آبادی کم ظاہر کی گئی تاکہ مالیاتی ایوارڈ میں سندھ کا حصہ نہ بڑھایا جاسکے۔

نثار کھوڑو نے مردم شماری کے اعداد و شمار کے خلاف جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سندھ اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوگا اور لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطہ کر کے جلد آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

الیاس انصاری Aug 29, 2017 03:39pm
مردم شماری میں لاہور کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ دکھائی گئی ہیں حالانکہ لاہور میں اتنی جگہ ہی نہیں ہے کہ وہاں ایک کروڑ افراد سما سکیں
KHAN Aug 29, 2017 06:31pm
ڈان کی مردم شماری کی ہر خبر میں خواجہ سرا کی آبادی کا ذکر لازمی ہوگا، آخر کیوں؟