جامعہ کراچی کے ترجمان نے زیر تعلیم طلبہ کے ریکارڈز کی جانچ پڑتال کی خبروں کو یکسر مسترد کردیا۔

ترجمان جامعہ کراچی کی جانب سے جاری بیان میں جامعہ میں داخلے کے خواہشمند طلبہ کو، متعلقہ پولیس تھانوں سے حاصل کردہ ’کلیئرنس سرٹیفکیٹ‘ جمع کرانے کو لازمی قرار دینے کی خبروں کی بھی تردید کی۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی تمام خبریں بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہیں اور اب تک اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ بعض میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ دہشت گردی کے واقعات میں جامعات کے طلبہ کے ملوث ہونے پر طلبہ کا ریکارڈ حساس اداروں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

رپورٹس میں کہا گیا کہ طلبہ کا ریکارڈ حساس اداروں کو دینے سے متعلق اکیڈمک کونسل کے آئندہ اجلاس میں منظوری لی جائے گی۔

دوسری جانب جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ جامعہ، طلبہ کی سیکیورٹی کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون اور ان کی معاونت حاصل کرے گی اور طلبہ کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ہم ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

اجلاس میں سنڈیکیٹ اور اکیڈمک کونسل کے اراکین، ڈینز، اسٹوڈنٹس ایڈوائزر اور جامعہ کے رجسٹرار نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: ایم کیو ایم رہنما خواجہ اظہار الحسن قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے

یاد رہے کہ پولیس کی جانب سے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن پر حملے کے مبینہ ماسٹرمائنڈ عبدالکریم سروش صدیقی سے متعلق دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ جامعہ کراچی میں اپلائڈ فزکس کا طالب علم رہا تھا۔

عبدالکریم سروش صدیقی گزشتہ روز کراچی کے علاقے گلزار ہجری میں پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے سرچ آپریشن کے دوران زخمی حالت میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

پولیس کے مطابق خواجہ اظہار الحسن پر حملے کے بعد گرفتار ہونے والے دہشت گرد کی معلومات پر کراچی کے علاقے گلزار ہجری میں قائم گلشن کنیز فاطمہ میں مزید دہشت گردوں کے خلاف پولیس، رینجرز سمیت حساس اداروں کے اہلکاروں مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے ایک مکان پر چھاپہ مارا تاہم مسلح ملزم نے فائرنگ کردی جس سے ایک پولیس اہلکار جاں بحق اور ایک اہلکار زخمی ہوگیا۔

واقعے کے بعد قانون نافذ کرنے والےاداروں نے مذکورہ مکان اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے مذکورہ مکان پر کارروائی کی جس کے نتیجے میں ایک دہشت گرد زخمی حالت میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔

پولیس کا دعویٰ تھا کہ فرار ہونے والا دہشت گرد کالعدم تنظیم انصار الشریعہ سے تعلق رکھتا ہے۔

خیال رہے کہ 2 ستمبر کو خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا، تاہم وہ محفوظ رہے جبکہ حملے کے نتیجے میں خواجہ اظہار الحسن کا ایک محافظ اور ایک 12 سالہ لڑکا جاں بحق جبکہ ایک محافظ سمیت 2 افراد زخمی ہوئے تھے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ خواجہ اظہار الحسن کے محافظوں کی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں ایک حملہ آور مارا گیا جس کے قبضے سے ایک 9 ایم ایم پستول اور اس کی موٹر سائیکل کو قبضے میں لے لیا گیا جبکہ ایک حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں