اسلام آباد: انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ایک جاسوس نے ادارے پر دہشت گردوں کے تحفظ کا الزام عائد کردیا۔

آئی بی کے موجودہ سب انسپکٹر اے ایس آئی ملک مختار احمد شہزاد نے اپنے سینئر افسران پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی، جس میں درخواست کی گئی کہ اس معاملے کی تحقیقات انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سپرد کی جائیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکام نے بتایا کہ عدالت عالیہ کے رجسٹرار نے مذکورہ پٹیشن جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں سماعت کے لیے بھیجی تھی تاہم انہوں نے یہ کیس عدالت عالیہ کے چیف جسٹس محمد انور خان کانسی کو بھیج دیا تاکہ اسے جسٹس عزیز صدیقی کو منتقل کیا جائے کیونکہ ایسا ہی ایک کیس ان کی عدالت میں زیر التواء ہے۔

مزید پڑھیں: ڈی جی آئی بی کا جے آئی ٹی اراکین کے کوائف جمع کرنے کااعتراف

ملک مختار احمد شہزاد نے اپنے وکیل مسرور شاہ کے ذریعے دائر کی گئی پٹیشن میں کہا کہ انہوں ںے 2007 میں آئی بی میں ملازمت اختیار کی جس کے بعد سے انہوں نے ازبکستان، ایران، افغانستان، شام اور بھارت سے تعلق رکھنے والے متعدد دہشت گردوں کے حوالے سے رپورٹس پیش کیں، تاہم ان کی خفیہ رپورٹس پر آئی بی کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ’متعدد خفیہ معلومات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ آئی بی کے کچھ اعلیٰ افسران خود بھی دشمن ایجنسیوں سے منسلک دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہیں‘۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہاس معاملے کے حوالے سے آئی بی کے ڈائریکٹر کو بھی آگاہ کیا گیا تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب اور آئی بی سمیت دیگر اداروں نے جے آئی ٹی الزامات مسترد کردیے

پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا کہ کچھ آئی بی افسران نے اسرائیل کا دورہ کیا اور ان کے افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں سے براہ راست رابطے ہیں، اور بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے قازقستان کے دہشت گرد گروپوں سے بھی رابطے ہیں۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ’یہ دہشت گرد سرگودھا کے علاقوں کوٹ مومن اور بھلوال میں خود کو پھلوں کے خریدار ظاہر کرکے کام کررہے ہیں اور یہ خفیہ سرگرمیاں اس کاروبار کی آڑ میں کی جارہی ہیں‘۔

انہوں نے الزام لگایا کہ آئی بی پنجاب کے جوائنٹ ڈائریکٹر کے صاحبزادے نشاندہی کیے جانے والے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ معاملات چلا رہے ہیں۔

پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا کہ کچھ افغان اور ایرانی انٹیلی جنس حکام پھلوں کے ڈیلر کے بھیس میں کام کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آئی بی سے خفیہ فنڈ کی تفصیلات طلب کر لیں

پٹیشنر نے آئی بی کے کچھ افسران کے نام بھی بتائے جو غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیز کے پے رول پر کام کررہے ہیں، ان میں جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل، ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹرز بھی شامل ہیں۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ کچھ سینئر آئی بی افسران نے افغان شہریوں کو پاکستانی شہریت دلوانے میں بھی سہولت فراہم کی۔

آئی بی کے سب انسپکٹر کا کہنا تھا کہ انہوں ںے ’قومی سلامتی اور شہریوں کے تحفظ کے لیے وزیراعظم پاکستان کو بھی آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی تاہم اس پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی‘۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ آئی بی افسران کے دہشت گردوں سے روابط کے معاملے کی تحقیقات آئی ایس آئی کے سپرد کی جائیں۔

پٹیشن میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ آئی بی افسران پر نگرانی کا مؤثر طریقہ کار وضح کریں، جو فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث ہیں۔

واضح رہے کہ حال ہی میں آئی بی کو اُس وقت بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے آئی ایس آئی، ایم آئی اور دیگر اداروں کے ارکان پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔


یہ رپورٹ 26 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ZAFAR KHAN Sep 26, 2017 09:47pm
بلکل درست ۔۔ ہمارے ادارے ہی ملک کے دشمن ہیں