وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ بھارت سے خیر کی کوئی توقع نہیں ہے اور کشمری سے توجہ ہٹانے کے لیے پاک-چین اقتصادی راہدار (سی پیک) کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کررہا ہے۔

نجی ٹی وی جیو کو ایک انٹرویو کے دوران وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ہمارا کشمیر کا مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ ہے جس سے ہم نہ تو کبھی پیچھے ہٹے ہیں اور نہ ہی ہٹیں گے اور آج بھی اپنے کشمیری بھائیوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیراعظم سے بات نہیں ہو سکتی اور بھارت کو چاہیے کہ وہ کشمیری عوام کی رائے کا احترام کرے اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کے ساتھ سب سے پہلے کشمیر اور پھر باقی معاملات کو دیکھیں گے اسی لیے بھارت کشمیر کے مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لیے سی پیک کے خلاف پروپیگنڈا کررہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:چین نے بھی سی پیک پر امریکی اعتراضات مسترد کردیئے

انھوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ سمیت ہر اہم بین الاقوامی فورم پر مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اجاگر کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری وہاں مختلف ممالک کے ساتھ 8 اہم ترین ملاقاتیں بھی ہوئیں جہاں ان ممالک نے یہ بات تسلیم کی کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف دنیا کی سب سے بڑی جنگ لڑ رہا ہے اس لیے پاکستان پر کسی دہشت گرد کی حمایت کا الزام لگانا درست نہیں ہے۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ کنٹرول لائن پر کشیدگی پیدا کر کے بھارت کشمیری عوام کی پرامن جدوجہد آزادی پر سے عالمی توجہ ہٹانا چاہتا ہے لیکن پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا رہا ہے اور یہ حمایت آج بھی جاری ہے جو ہمیشہ جاری رہے گی۔

پروگرام کے دوران انھوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سے خیر کی توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی لیکن ہم بھارت سے بلامشروط بات چیت کے لیے تیار ہیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی سرحدوں کی حفاظت بھی کرنی ہے اورکسی بھی قسم کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار بھی رہنا ہے۔

مزید پڑھیں:سی پیک متنازع علاقے سے گزر رہا ہے: امریکا

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ بھارت سے پاکستان کی ترقی و خوشحالی ہضم نہیں ہو پا رہی اور یہی وجہ ہے کہ وہ سی پیک پر مختلف سازشوں میں ملوث ہے حالانکہ سی پیک سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورا خطہ مستفید ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ ہم ہر سازش کا مقابلہ کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے اور یہ بات ہم نے بھارت کو باور بھی کرا دی ہے۔

انھوں نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی کے پاکستان کے دورے کے بارے میں ابھی سرکاری طور پر کچھ طے نہیں لیکن وہ جب بھی آنا چاہیں انہیں خوش آمدید کہیں گے۔

افغانستان کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ افغان امن عمل کے لیے مجھے بطور وزیراعظم پاکستان بھی وہاں جانے میں کوئی ہرج نہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ ہی ہمیں آگے بڑھنا ہو گا، سیاست کے فیصلے اور ملک میں تبدیلی کے فیصلے عدالتوں اور سڑکوں کی بجائے بیلٹ باکس پر ہونے چاہیئں کیونکہ جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ قبل از وقت انتخابات کا کوئی امکان نہیں اور آئندہ عام انتخابات 2018 میں ہوں گے جس میں عوام جسے چاہیں گے منتخب کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں