اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واضع کیا ہے کہ سیاسی مقدمات کا نقصان عدالتوں کو ہوتا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور رہنما جہانگیر ترین کی نااہلی کا معاملہ اپنی نوعیت کا منفرد اور سیاسی کیس ہے ’ہم چاہتے تو اس پر جے آئی ٹی بنا سکتے تھے‘۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے عمران خان نااہلی کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے موقف اپنایا کہ عمران خان نے کیس میں کوئی یوٹرن نہیں لیا، موقف بدلنے سے متعلق جو تاثر دیا گیا وہ غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کے سامنے اٹھائے گئے نئے سوالات پر جواب اور متعلقہ دستاویزات جمع کروائے، جن کی نشاندہی جسٹس فیصل عرب نے بھی کی تھی۔

نعیم بخاری نے کہا کہ بیان حلفی دیتے وقت عمران خان کے پاس دستاویزات نہیں تھیں، تاہم نعیم بخاری کی جانب سے دلائل دینے پر حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ سماعت مکمل ہونے کے بعد مزید دلائل نہیں دیے جا سکتے اور نہ ہی پہلے سے دیئے گئے دلائل میں ترمیم یا تبدیلی کی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان نااہلی کیس: ’چیئرمین پی ٹی آئی کا موقف عدالتی نظام کی توہین‘

اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا ہم نے پہلے بھی وضاحت کی تھی کہ کیس مکمل نہیں ہوا، دستاویزات کے لیے اور عدالتی سوالات کا جواب دینے کا پورا موقع دیا، یہ معاملہ ہے کہ روزانہ کوئی نئی چیز سامنے آ جاتی ہے جس پر اکرم شیخ نے کہا میری نظر میں عمران خان کی نئی درخواست ہی توہین عدالت ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیا بات کر رہے ہیں، اگر اضافی دستاویزات چاہیں تو ہم نہیں منگوا سکتے؟ جس پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ اضافی دستاویزات منگوائی جا سکتی ہیں لیکن خلاء کو پر نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس درخواست کے ذریعے انہوں نے جو خلاء تھا اس کو پر کرنے کی کوشش کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں تو موقف تبدیل کرنے کا نہیں کہا گیا جبکہ ہم آپکی درخواست سے بھی آگے بڑھ کر سماعت کر رہے ہیں اور عمران خان سے ایک ایک پائی کا حساب لے چکے ہیں جیسا کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر کسی کو مکمل موقع دے رہے ہیں۔

اکرم شیخ نے کہا عمران خان کی بددیانی تلاش کرنا دن میں چراغ لے کر سورج تلاش کرنے کے مترادف ہے کیونکہ عمران خان کی سات مختلف درخواستوں میں سات مختلف موقف ہیں جبکہ موقف کی تبدیلی کے حوالے سے پاناما کا فیصلہ لاء آف دی لینڈ بن گیا ہے، جس پر جسٹس عمر بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس کیس کو پاناما سے کیوں جوڑ رہے ہیں، پاناما کیس میں ججز نے سوالات پوچھے جن کا کوئی جواب نہیں دیا گیا اور نا ہی دستاویزات دی گئیں اور اسی بنیاد پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ لیکن اس کیس میں نا صرف پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیے گئے بلکہ متعلقہ دستاویزات بھی فراہم کی گئیں، دستاویزات مصدقہ ہے یا نہیں وہ الگ معاملہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’عمران خان اور جہانگیر ترین نا اہلی کیس کا فیصلہ ایک ساتھ کریں گے‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے لیے آسان تھا کہ جے آئی ٹی بنا دیتے لیکن ہمارا مقصد تھا کہ تمام فریقین کو مکمل موقع فراہم کیا جائے جس پر اکرم شیخ نے کہا پاناما اور یہ کیس ایک ساتھ آئے تھے اگر یہ معاملہ بھی جے آئی ٹی کو بھیج دیا جاتا تو آج دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا،عدالت نے عمران خان کی درخواست پر حنیف عباسی سے ایک ہفتے میں جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 24 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کر دی۔

20 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف جاری منی ٹریل پر مزید اعتراضات اٹھاتے ہوئے حنیف عباسی نے متفرق درخواست عدالت میں دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست عدالتی نظام کی توہین ہے۔

اس سے قبل 18 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین نا اہلی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ پی ٹی آئی کے دونوں رہنماؤں کے خلاف نااہلی کیس کا گہرائی سے جائزہ لے رہے ہیں اور مشترک سوالات کی وجہ سے دونوں مقدمات کا فیصلہ ایک ساتھ کریں گے۔

خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین پر اثاثے چھپانے اور آف شور کمپنیاں رکھنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انھیں نااہل قرار دینے کی علیحدہ علیحدہ درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں