کراچی: ملک میں ہونے والی حالیہ مردم شماری کی رپورٹ پر صوبہ سندھ کے خدشات پر بات چیت کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 13 نومبر کو اسلام آباد میں متوقع ہے۔

اجلاس میں اگر سندھ حکومت کے تحفظات دور ہوجاتے ہیں تو رپورٹ منظور ہونے کا بھی امکان ہے۔

واضح رہے کہ نہ صرف وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بلکہ سندھ اسمبلی کی جانب سے بھی صوبائی مردم شماری کی رپورٹ کو مسترد کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ اس حوالے سے اراکین سندھ اسمبلی کے درمیان اتفاق رائے موجود ہے کہ اگر ان کی شکایات حل نہ ہوئی اور رجسٹرڈ ووٹروں کی بنیاد پر حلقہ بندیاں نہیں کی گئی تو صوبے کے عوام کو سڑکوں پر لے آئیں گے۔

مزید پڑھیں: صوبوں کے مردم شماری نتائج کا نوٹیفکیشن جلد جاری کرنے کا مطالبہ

وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ کے تحفظات کو یہ کہ کر مسترد کردیا گیا تھا کہ مردم شماری کا عمل شفاف تھا اور ہر صوبے کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر نگرانی کمیٹیاں بھی بنائی گئیں تھیں، تاہم اس بارے میں وزیر اعلیٰ سندھ کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سندھ کے عوام کو مردم شماری کے نتائج پر تحفظات ہیں۔

انہوں نے محکمہ شماریات سے مطالبہ کیا تھا کہ صوبہ سندھ کے حوالے سے مردم شماری بلاک کی تفصیلات دی جائیں تاکہ وہ رپورٹ میں اعداد و شمار کی تصدیق کرسکیں۔

صوبائی حکومت کے مطابق سندھ کی آبادی کواصل آبادی کے مقابلے میں کم دکھایا گیا ہے جس کی وجہ سے نیشنل فنانس کمیشن( این ایف سی) ایوارڈ میں صوبے کے وسائل میں اضافہ نہیں ہوگا۔

خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) کی سندھ حکومت کے علاوہ سندھ اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) پاکستان کی جانب سے بھی ان نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔

ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ مردم شماری کے اعداد و شمار کراچی کی اصل آبادی کی عکاسی نہیں کرتے۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیوایم کا مردم شماری دوبارہ کروانے کا مطالبہ

مردم شماری رپورٹ سے متعلق سوالات پر ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب شہر کے لوگوں کی گنتی صحیح نہیں کی جائے گی تو شہر کے مسائل کس طرح حل ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی آبادی تقریباً 3 کروڑ تک پہنچ چکی ہے لیکن مردم شماری میں اسے 1 کروڑ 60 لاکھ بتایا گیا۔

پاکستان محکمہ شماریات کی جانب نے جاری اعداد شمار کے مطابق کراچی کی آبادی 1998 میں 90 لاکھ 39 ہزار تھی جو 2017 میں 1 کروڑ 49 لاکھ تک تجاوز کر گئی۔

سندھ کی 4 کروڑ 79 لاکھ آبادی کے 33 فیصد لوگ کراچی اور حیدرآباد میں رہتے ہیں۔

واضح رہے کہ 19 برسوں میں صوبائی دارالحکومت کی آبادی میں 59 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اسی دوران حیدرآباد کی آبادی میں صرف 6 لاکھ بڑھی۔

اس موقف کی حمایت میں سندھ حکومت نے نشاندہی کی کہ 1998میں ہونے والی ملک کی پانچویں مردم شماری کی رپورٹ میں کراچی کی آبادی 90 لاکھ 39 ہزار تھی جسے 19 برس بعد 2.41 فیصد کی سالانہ ترقی کی شرح کے ساتھ 1 کروڑ 49 لاکھ دکھایا گیا، لاکھوں لوگوں کے دو پتے دکھائے گئے جبکہ وہ وہاں کام کرتے تھے اور سندھ میں رہتے تھے، یہ سندھ کے ساتھ زیادتی ہے جس کی اجازت نہیں دیں سکتے۔


یہ خبر 13 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں