اسلام آباد: سینیٹ پینل نے اعداد و شمار ڈویژن سے کہا ہے کہ صوبوں کی مردم شماری کا نوٹیفکیشن جلد جاری کیا جائے کیونکہ اس سے نئی حلقہ بندیوں کے معاملے پر تنازعہ کھڑا ہوسکتا ہے جس سے انتخابات میں بھی ہوسکتی ہے۔

اس حوالے سے سینیٹر محسن عزیز کی سربراہی میں دیگر سینیٹرز نے اعداد و شمار ہاؤس کا دورہ کیا اور مردم شماری کے نتائج کے حوالے سے معلومات حاصل کیں۔

مردم شماری کمیشن کے سابق چیف اور چیف کنسلٹنٹ آصف باجوہ نے نتائج کے طریقہ کار اور ان کے مکمل ہونے کے حوالے سے سینیٹرز کو آگاہ کیا۔

واضح رہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے مختلف قانون سازوں نے صوبائی مردم شماری کے نتائج کی شفافیت پر اعتراض اٹھائے تھے اورمطالبہ کیا کہ کچھ علاقوں خاص طور پر کراچی میں دوبارہ مردم شماری کرائی جائے۔

مزید پڑھیں: نئی حلقہ بندیوں پر اپوزیشن کے تحفظات دور نہ ہوسکے

اس حوالے سے منعقدہ اجلاس میں سینیٹر نسرین جلیل نے کراچی میں دوبارہ مردم شماری کا مطالبہ کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ حالیہ نتائج نیشل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والے وسائل پر گہرا اثر ڈالیں گے۔

سینیٹر شیری رحمٰن کی جانب سے بھی یہی مطالبہ سامنے آیا، انہوں نے اعتراض کیا کہ سروے فارم کے حوالے سے کوئی بھی کاؤنٹر چیک کا نظام نہیں تھا جس کی وجہ سے یہ نتائج متنازع ہوئے۔

سینیٹر شیری رحمٰن کے تحفظات پر چیف کنسلٹنٹ کا کہنا تھا کہ کاؤنٹر چیک کا طریقہ کار تکنیکی کمیٹی کی جانب سے بنائے گئے پلان کا حصہ نہیں تھا، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے متعدد بار صوبائی حکومت سے درخواست کی کہ وہ اپنی رپورٹ جمع کرائیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیوایم کا مردم شماری دوبارہ کروانے کا مطالبہ

اجلاس میں کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ مردم شماری پر تحفظات کے حوالے سے حکومت نے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی جو اعداد و شمار کمیشن کی اس سلسلے میں مدد کرے گی، اس پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے ممبران کو شامل کیا جائےگا۔

سینیٹر ہری رام نے بھی مردم شماری کی شفافیت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ جاری ہونے والے نتائج درست نہیں کیونکہ سندھ میں رہنے والے ہندوں مختلف اوقات میں ہجرت کرچکے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ تھر میں اس وقت مردم شماری کی گئی جب وہاں کے لوگ خشک سالی کے باعث ہجرت کرچکے تھے۔

چیف کنسلٹنٹ آصف باجوہ نے کمیٹی کو بتایا کہ مفادات کونسل نے انہیں مردم شماری کے حتمی نتائج مکمل کرنے کے لیے مئی 2018 تک کی مہلت دی ہے جبکہ اعداد شمار بیورو کی جانب سے یہ تعین کیا گیا ہے کہ اپریل تک تمام عمل مکمل کرلیا جائےگا۔

مزید پڑھیں: ’آئندہ عام انتخابات مردم شماری کے حتمی نتائج پر نہیں ہوسکتے‘

انہوں نے اپنے پہلے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے محکمہ شماریات ( پی بی ایس) اور پاک فوج کے ڈیٹا کوملا کردیکھا گیا تھا جس میں کوئی تضاد نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی ڈیٹا عوامی کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن اس حوالے سے متعلقہ حکومتی ادارے کی اجازت درکار ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتوں نے پی بی ایس ہیڈکوارٹر میں ہونے والے تمام طریقہ کار کی مانیٹرنگ کے لیے پہلے ہی تکنیکی کمیٹیاں بنائی تھی جبکہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) سیکریٹریٹ کی جانب سے تکنیکی کمیٹی بنانے کے لیے پہلے ہی درخواست دی جاچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختون خوا کی کمیٹیوں نے پی بی ایس کی جانب سے مردم شماری کے اعداد و شمار کے طریقہ کار پر اطمینان کا اظہار کیا تاہم سندھ کی جانب سے اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

آصف باجوہ کا کہنا تھا کہ پی بی ایس نے تکنیکی کمیٹی کے چیئرمین سے صوبائی حکومتوں کو جمع کرائی جانے والی رپورٹ دکھانے کی درخواست کی ہے تاکہ اس رپورٹ کی روشنی میں باقی عمل مکمل کیا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: مردم شماری پر ایم کیوایم کے تحفظات دور ہونے چاہیے،ترجمان پنجاب حکومت

ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری میں کوئی بھی ریجن میں کسی حصہ کو چھوڑا نہیں گیا اور نہ ہی اس عمل میں کسی حصے کا بائیکاٹ کیا گیا۔

سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں عوامی درخواست نمبر1992 کے حوالے سے بھی بات کی گئی جو پی بی ایس کے ملازمین کی جانب سے سینیٹ کے چیئرمین کو بھیجی گئی تھی جس میں پی بی ایس (پی سی ونگ) کے 1045 عارضی نشستوں کو مستقل کرنے کا کہا گیا تھا۔


یہ خبر 8 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں