خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان میں لڑکی پر تشدد اور محصور کرنے کے بعد اسے برہنہ کرکے گھمانے کے واقعے پر سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی گھناؤنا جرم ہے جو ہمارے صوبے، کلچر اور ملک کے لیے بین الاقوامی سطح بہت بڑا دھبہ ہے۔

سماجی کارکن نیلم تورو نے افسوسناک واقعے کے حوالے سے ڈان نیوز کے پروگرام ’نیوز وائز‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ’بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس طرح کا واقعہ جب ہوتا ہے اور بہت زیادہ ابھر کر سامنے آتا ہے تو بجائے اس کی مدد کرنے کے اس کو سیاست کی نظر کر دیا جاتا ہے۔‘

نیلم تورو کا کہنا تھا کہ کچھ خدشات لوگوں کی طرف سے تھے کہ یہ کیس مقامی تھانے میں رفع دفع ہوجائے گا مگر اب ایس ایس پی انویسٹی گیشن خود اپنی ایک ٹیم بنا کر واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا اس کیس میں آئین کے آرٹیکل 365 ’اے‘ کا اطلاق ہوتا ہے جس کی سزا موت ہے، تاہم کیس کا مرکزی ملزم تاحال فرار ہے اور اس کی گرفتاری کے لیے کوئٹہ، کراچی سمیت ہر جگہ چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ڈیرہ اسماعیل خان:لڑکی پر تشدد کے الزام میں مزید 2 افراد گرفتار

متاثرہ لڑکی کے خاندان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سماجی کارکن کا کہنا تھا کہ یقیناً لڑکی کا خاندان بہت دباؤ میں ہے، لیکن اب انہیں سیکیورٹی دے دی گئی ہے اور اب وہ محفوظ ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور پروگرام کے دوسرے مہمان فیصل کریم کنڈی نے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں متاثرہ لڑکی کے گھر گیا اور اس کے خاندان سے ملاقات کی، جب اس لڑکی کے خاندان والے تھانے میں گئے تو ایس ایچ او نے ان کو دھمکیاں دیں اور کہا کہ ہم اُلٹا آپ کے خلاف ایف آئی آر کاٹ رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ میڈیا کی طرف سے معاملہ اٹھائے جانے کے بعد متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو معطل کیا گیا ورنہ وہ عہدے پر براجمان تھا، اگر خیبر پختونخوا پولیس غیر سیاسی ہوتی تو کیا ایسا کرتی؟

یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی: گیارہ سالہ لڑکی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ

واضح رہے کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان کے علاقے دربان میں 27 اکتوبر کو ایک لڑکی پر تشدد کا واقعہ پیش آیا تھا جبکہ بااثر افراد نے لڑکی کو پورے علاقے میں برہنہ گھمایا بھی تھا۔

گزشتہ روز متاثرہ لڑکی کے اہل خانہ نے مقامی پولیس اسٹیشن میں واقعے کا مقدمہ درج کرایا تھا، جس میں تمام ملزمان کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔

تشدد کا شکار لڑکی کے بھائیوں نے مقامی پولیس پر کارروائی میں غفلت برتنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا سے انصاف کی اپیل کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ ایس ایچ او کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

درخواست میں کہا گیا کہ ان کی بہن کو سجاول اور ان کے ساتھیوں نے پانی کے تالاب سے اس وقت اٹھا لیا تھا جب وہ سہیلیوں کے ساتھ پانی لینے گئی تھیں، جس کے بعد وہ ایک گھر میں چھپ کر پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن ملزمان نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور گھر سے باہر نکالا اور غیر قانونی طور پر حراست میں بھی رکھا۔

تبصرے (0) بند ہیں