پاکستان میں نئے احتساب کمیشن کے قیام کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی کا ایک اور اجلاس بے نتیجہ ختم ہوا جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعت اسلامی نے نئے کمیشن کے قیام کی مخالفت کی جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے اراکین اجلاس سے غیرحاضر رہے۔

پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کو خدشہ ہے کہ حکمران جماعت قانون سازی کے ذریعے نواز شریف اور ان کے خاندان کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے اور دونوں جماعتیں موجودہ نیب قانون (قومی احتساب بیورو) کو برقرار رکھنے کی خواہش مند ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ 'عوامی عہدہ رکھنے والے اشخاص کے اہل خانہ کو بھی احتساب کے دائرہ کار میں لایا جائے'۔

انھوں نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'حکومت عوامی عہدوں پر بیٹھے اشخاص کے اہل خانہ کو احتساب کے دائرہ کار میں لانے کی مخالفت کررہی ہے'۔

پارلیمانی کمیٹی میں شامل تمام جماعتوں کے اراکین ملزمان کے خلاف کرپشن ریفرنس دائر کرنے کے طریقہ کار پر بھی متفق نہ ہوسکے۔

وزیرقانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ 'چاہتے ہیں کہ چیئرمین کے بجائے احتساب کمیشن کسی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کرے'۔

وفاقی وزیر قانون نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ قانون میں کرپشن ریفرنس دائر کرنے کی منظوری چیئرمین نیب کے پاس ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب کو برقرار رکھنے یا نئے احتساب کمیشن کے قیام کا فیصلہ ووٹنگ کے ذریعے کیا جائے گا اور کرپشن کرنے اور پیسے دینے والے کو بھی سزا دینے کی تجویز سامنے آئی ہے۔

زاہد حامد کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اراکین کی عدم موجودگی کے باعث کرپشن کی تعریف اور سزا پر اتفاق نہیں ہوسکا۔

پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس 17 نومبر کو دوبارہ طلب کیا گیا ہے۔

نئی حلقہ بندیوں پر بات کرتے ہوئے زاہد حامد نے کہا کہ 'امید ہے پارلیمانی رہنماوں کے اجلاس میں حلقہ بندیوں سے متعلق بل کی منظوری دے دی جائے گی'۔

انھوں نے کہا کہ 'الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل بھی جلد پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے گا'۔

وزیرقانون نے بتایا کہ 'ترمیم کے ذریعے احمدیوں کی الگ ووٹر لسٹ مرتب کی جائے گی'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں