اسلام آباد میں جاری مذہبی جماعت کے دھرنے نے وفاقی دارالحکومت کی پولیس کے اخراجات میں اضافہ کردیا جس کے باعث اخراجات 12 کروڑ روپے تک پہنچ گئے تاہم دھرنے کے مزید جاری رہنے پر اس میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اسلام آباد پولیس فورس کو شہر میں اپنی خدمات کی انجام دہی کے لیے سہولیات ادا کرنے والوں کی ادائیگی میں تاخیر کررہی ہے جبکہ فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) اور پنجاب کانسٹیبلری (پی سی) کے ریزرو دستوں کو پولیس کی جانب سے دی جانے والی سہولیات کے لیے بھی رقم ادا نہیں کی گئی۔

تاہم پولیس افسران کی جانب سے مسلسل اعلیٰ افسران کے سامنے اس معاملے کو اٹھایا جارہا ہے جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارتِ خزانہ کی جانب سے اسلام آباد پولیس کو ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: 'معاملے کا حل پرامن طریقے سے نکل آئے گا'

خیال رہے کہ 24 اکتوبر کو اس وقت وفاقی دارالحکومت میں سیکیورٹی کی تعداد میں اضافہ کردیا گیا تھا جب تحریک لبیک پاکستان کے اشرف جلالی گروہ نے اسلام آباد کے بلیو ایریا میں دھرنا دیا تاہم اسے بعد میں 3 نومبر کو ختم کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں 7 نومبر کو اسی تنظیم کے ایک اور گروہ نے خادم حسین رضوی کی سربراہی میں وفاقی دارالحکومت کی طرف پیش قدمی کی اور فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دے دیا جو ابھی تک جاری ہے۔

ذرائع کے مطابق اسلام آباد پولیس، ایف سی اور پی سی کے کھانے کا بل 55 لاکھ تک پہنچ گیا ہے کیونکہ بڑی تعداد میں اہلکار حالات کے مطابق تعینات ہیں تاہم ذرائع نے بتایا کہ اوسطاً ایک شفٹ میں 3 ہزار سے 7 ہزار تک اہلکار موجود ہوتے ہیں۔

مزید براں پولیس نے سیکیورٹی کے پیش نظر سڑکوں کو بند کرنے کے لیے 200 کنٹینر کرائے پر لیے تھے جن کا کرایہ 30 لاکھ روپے سے زائد تک پہنچ گیا ہے۔

اس کے علاوہ اسلام آباد پولیس نے 5 کرین اور 10 ٹرالر کو بھی کنٹینرز کی نقل و حمل کے لیے کرائے پر لیا جبکہ جبکہ 19 پانی کے ٹینکر کو 15 واٹر کینن کو بھرنے اور اہلکاروں کو پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے بھی کرائے پر لیا گیا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ بسوں اور ویگنوں سمیت 40 گاڑیاں بھی سیکیورٹی اہلکاروں کو فیض آباد کے مقام پر ڈیوٹی پر لےجانے پر بھی مامور ہیں، جن کا کرایہ 10 لاکھ سے تجاوز کرچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: احسن اقبال کی ایک مرتبہ پھر فیض آباد دھرنا ختم کرنے کی اپیل

اس کے علاوہ ایندھن کا خرچ، ریزرو اہلکاروں کی رہائش اور مظاہرین سے جھڑپ میں زخمی ہونے والے اہلکاروں کے علاج معالجے پربھی کافی اخراجات آرہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق سہولیات فراہم کرنے والے دکاندار اور مالکان ادائیگی کا تقاضہ کر رہے لیکن پولیس حکام رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور سہولیات ادھار پر حاصل کی جارہی ہیں۔

3 نومبر کو پولیس کی جانب سے حکومت سے 7 کڑور روپے کی گرانٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاکہ دھرنا کی سیکیورٹی پر آنے والے اخراجات کو برداشت کیا جاسکے۔

بعد ازاں ترجیحی بنیادوں پر 7 کروڑ 50 لاکھ روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کی کوشش کی گئی اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) کے دفتر سے کم سے کم تین بار وزیرِ داخلہ کو یاد دہانی کرائی گئی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اس حوالے سے آئی جی اسلام آباد خالد خٹک سے متعدد مرتبہ رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔

علاوہ ازیں گولڑہ شریف مزار کے گدی نشین نے گذشتہ روز پریس کانفرنس میں حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ دھرنے کے مظاہرین سے نتیجہ خیز مذاکرات کرے کیونکہ پاکستان کسی بھی تصادم کی صورتحال کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد: دھرنے کے باعث شہریوں کے لیے اذیت ناک صورتحال

انہوں نے مزید کہا تھا کہ چند ہزار لوگ اس وقت اسلام آباد میں موجود ہیں لیکن اگر ان کے خلاف کوئی سخت کارروائی کی گئی تو متعدد لوگ سڑکوں پر ہوں گے اور حکومت کا انہیں روکنا ممکن نہیں ہوگا۔

انہوں نےکہا کہ سینیٹر راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کی جانب انتخابی امیدوار کے لیے ختم نبوت کے حلف میں تبدیلی کو متنازعہ بنانے کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے اور اس میں ملوث افراد کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔


یہ خبر 22 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں