ایمرسن میننگاگوا نے زمبابوے کے نئے صدر کا حلف اٹھالیا

25 نومبر 2017
میننگاگوا اس سے قبل  جسٹس کے علاوہ وزیردفاع بھی رہ چکے ہیں—فوٹو:اے ایف پی
میننگاگوا اس سے قبل جسٹس کے علاوہ وزیردفاع بھی رہ چکے ہیں—فوٹو:اے ایف پی

زمبابوے میں جاری سیاسی تنازع کے خاتمے کے بعد ایمرسن میننگاگوا نے ہرارے کے نیشنل اسپورٹس اسٹیڈیم میں 1980 میں آزادی حاصل کرنے والے ملک کے دوسرے صدر کے طور پر حلف اٹھا لیا۔

ایمرسن میننگاگوا کو سابق صدر رابرٹ موگابے نے نائب صدر کے عہدے سے برطرف کردیا تھا جس کے بعد ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوگیا تھا اور فوج نے مداخلت کرتے ہوئے رابرٹ موگابے کو نظر بند کردیا تھا۔

صدر کے حلف لینے کی تقریب دارالحکومت میں واقع نیشنل اسپورٹس اسٹیڈیم میں ہوئی جہاں ہزاروں افراد کے علاوہ بوٹسوانا، موزنبیق اور زیمبیا سمیت کئی علاقائی سربراہان موجود تھے۔

—فوٹو:اے ایف پی
—فوٹو:اے ایف پی

ایمرسن میننگاگوا متوقع طور پر موجودہ صدارتی مدت پوری کریں گے جو اگلے سال ختم ہوگی جبکہ تاحال نئے انتخابات کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

زمبابوے کے نئے صدر کو ان کی سخت مزاجی کے باعث 'مگرمچھ' کے عرف سے جانا جاتا ہے جو دہائیوں تک مستعفی ہونے والے 93 سالہ رابرٹ موگابے کے قریبی ساتھی رہے تاہم موگابے کی جانب سے اپنی اہلیہ کو ملک کی کمان سنبھالنے کے لیے آگے لانے پر اختلافات ہوئے اور الگ ہوگئے۔

مزید پڑھیں:زمبابوے:صدر رابرٹ موگابے کے 37 سالہ اقتدار کا اختتام

میننگاگوا سابق جج ہیں اور وزیر دفاع بھی رہ چکے ہیں جبکہ زمبابوے کی معاشی اور انسانی حقوق کے میدان میں تنزلی کے بھی برابر کے حصہ دار تھے تاہم انھوں نے ملک میں ترقی اور صورت حال کو بہتر کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

انھوں نے ملک میں جمہوریت کو بحال کرنے اور دیگر معاملات کو بہتر کرنے کا بھی عزم ظاہر کیا۔

خیال رہے کہ مگرمچھ کے عرف سے مشہور نئے صدر پر 1980 میں فوج کی جانب سے فرقہ وارانہ قتل و غارت اور 2008 میں جب موگابے کی شکست کا خدشے کے باعث ہونے والے فسادات کی نگرانی کا بھی الزام دیا گیا تھا۔

زمبابوے کے میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سابق معمرترین صدر موگابے بدستور ملک میں ہی رہیں گے اور وعدے کے مطابق انھیں سیکیورٹی کے علاوہ زمبابوے کی آزادی کے لیے ان کے کردار پر 'ہیرو' کا درجہ دیا جائے گا۔

سرکاری اخبار ہیرالڈ کے مطابق نئے صدر نے موگابے کو یقین دہانی کرادی ہے کہ انھیں اور ان کے اہل خانہ کو جب تک ملک میں موجود ہیں، تب تک 'زیادہ سے زیادہ سیکیورٹی' فراہم کی جائے گی۔

یاد رہے کہ رابرٹ موگابے نے ایک ہفتے سے بھی زیادہ رہنے والے سیاسی بحران کے بعد 21 نومبر کو صدارت سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد ان کے 37 سالہ طویل حکمرانی کا خاتمہ ہوا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں