اسلام آباد: پاکستان نے ٹرمپ انتظامیہ کی پہلی خارجہ پالیسی میں لگائے گئے الزامات کو یکسر مسترد کردیا۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان میں امریکی خارجہ پالیسی پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ من گھڑت، بے بنیاد اور زمینی حقائق کے منافی الزمات پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں اور قربانیوں کی نفی کرنے کے مترادف ہیں۔

دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ ’پاکستان نے خطے میں امن اور سلامتی کے لیے بیش بہا قربانیں دیں اور اس کے تعاون کے بدولت ہی خطے سے القاعدہ کا خاتمہ ممکن ہوا۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’امریکا کی موجودگی کے باوجود شرپسند عناصر افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اور پراکسی کے ذریعے پڑوسی ملک پاکستان مخالف عناصر کو دہشت گردی کے لیے مالی معاونت فراہم کر رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں کی نقل و حمل روکنے کے لیے موثر سرحدی نظام اور افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے پاکستان کی کوشش کو سبوتاژ کیا جارہا ہے، جبکہ دوسری جانب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کامیابیوں کو ناکام بنانے کے لیے مذموم مہم شروع کی گئی ہے۔‘

ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ ’دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے بلاامتیاز کارروائیوں کے ذریعے ملک میں امن و استحکام قائم ہوا اور دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے لیے ہم نے جان و مال کی بڑی قربانی دی ہے۔‘

مزید پڑھیں: امریکا، پاکستان کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف یک طرفہ اقدام اٹھانے کا خواہشمند

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور ہمدردوں کے خلاف لڑنے کے لیے پرعزم ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اس کی سرزمین کہیں بھی کشیدگی کے لیے استعمال نہ ہو۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اسی عزم کی اپنے پڑوسی ممالک اور خطے و عالم کے دیگر ممالک سے بھی امید رکھتے ہیں۔‘

ترجمان نے کہا کہ پاکستان اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ افغان تنازع کا سیاسی حل ہی ممکن ہے۔

بھارت کی حمایت کی مذمت

ترجمان دفتر خارجہ نے خطے میں بھارت کو کردار دینے کی امریکی کوششوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’جنوبی ایشا کا امن بھارت کے معاندانہ عزائم کے باعث خطرے میں ہے، جبکہ ممالک کو ان کے تعمیری کردار پر اس طرح کا درجہ دینا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بھارت کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی اعلانیہ سرکشی، جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیار متعارف کرانے اور دہشت گردی کو بطور ریاستی پالیسی استعمال کرنے کا ریکارڈ دنیا کے سامنے ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: کیا پاکستان پر دہشتگرد قابض ہوسکتے ہیں؟ امریکا کی نئی تشویش

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں معصوم شہرویوں پر مظالم اور سیز فائر لائن پر خلاف ورزیوں کا سلسلہ خطے کے تزویراتی استحکام کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔‘

جوہری پروگرام سے متعلق ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ ’پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے کمانڈ اینڈ کنٹرول انتہائی موثر اور عالمی گائیڈ لائن کے مطابق ہے۔‘

واضح رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اپنی پہلی خارجہ پالیسی میں اس بات پر زور دیا تھا کہ اگر پاکستان، امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو مزید تیز کرنا ہوگا۔

وائٹ ہاؤس سے جاری نئی پالیسی کے اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ اپنے ایٹمی اثاثوں کا ذمہ دار اور نگہبان ہے تو امریکا اس اقدام کو سراہے گا۔

نئی پالیسی میں پاک-بھارت ایٹمی تنازع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی قسم کے فوجی تنازع کی صورت میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خدشہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں