پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما اندلیب عباس کا کہنا ہے کہ اگر قصور میں بچوں کے ساتھ پہلے پیش آنے والے زیادتی کے واقعات پر کارروائی کرلی جاتی تو کمسن بچی زینب کے ساتھ یہ واقعہ پیش نہ آتا۔

ڈان نیوز کے پرگرام ’نیوز آئی‘ میں بات کرتے ہوئے اندلیب عباس کا کہنا تھا کہ 'قصور واقعے کے پیچھے مزید 11 واقعات ہیں جن کا تذکرہ نہیں کیا جارہا، اگر ہم نے ان واقعات کو نہیں اٹھایا تو کیا وہ بچے کم قیمتی تھے جو اپنی جان سے چلے گئے اور ان کا پتہ تک نہ چل سکا، میری اپنی بیٹی کا نام زینب ہے اور نہ جانے کتنی زینب ہیں جو پاکستان میں موجود ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اس سے قبل بھی قصور میں 284 بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رونما ہوئے جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے شرمناک واقع تھا، اس واقعے میں نہ صرف پولیس ملوث تھی بلکہ اس معاملے میں بننے والی ’جے آئی ٹی‘ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس میں اس وقت کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی ملوث تھے، بعد ازاں ان سب کو بری کردیا گیا اور چند کم قصوروار افراد کو گرفتار کر کے کیس کو دبا دیا گیا۔

پروگرام کی دوسری مہمان اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے خواتین ونگ کی رہنما راضیہ نوید کا کہنا تھا کہ ’جب حکومت اور قانونی ادارے تحفظ اور انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر ایک وقت آتا ہے کہ عوام سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور پھر لوگ انصاف مانگتے نہیں بلکہ چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے موقع پر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے آگے کون کھڑا ہے۔'

مزید پڑھیں: قصور: کمسن بچی کے مبینہ ریپ، قتل پر احتجاج، توڑ پھوڑ

انہوں نے کہا کہ ’جب بھی کسی مظلوم کے حق کے لیے آواز بلند کی جاتی ہے وہاں پر حکمراں جماعت کو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی سیاسی ایجنڈا تیار کیا جارہا ہے، تو کیا اب اس ملک میں غریب کے لیے آواز اٹھانا چھوڑ دیا جائے؟ یہ معاملہ سیاست چمکانے کا نہیں بلکہ انسانیت کا ہے، اس کے لیے ہمیں جو کچھ کرنا پڑا ہم کرتے چلے آئے ہیں اور جب تک انصاف نہیں مل جاتا کرتے رہیں گے۔'

راضیہ نوید کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ روز واقعے کے خلاف مظاہرے میں شریک 3 افراد 3 افراد مارے گئے اور اس سے قبل پیش آنے والا ماڈل ٹاؤن کے سانحے میں 14 افراد قتل اور متعدد زخمی ہوئے، ان سب میں ایک بات یکساں ہے کہ جہاں کوئی اپنے حق کی خاطر احتجاج کرتا ہے وہاں پر حکومتی کارندے گولی چلانے سے بھی گریز نہیں کرتے، باوجود اس کے کہ جو معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہوسکتا تھا اور لوگوں کو منظم کیا جاسکتا تھا وہاں بھی پولیس نے براہ راست لوگوں پر گولیاں چلائیں۔'

یہ بھی پڑھیں: 2015 سے ہونے والے ریپ اور قتل کے 8 کیسز کے پیچھے 'سیریل کلر' ملوث

انہوں نے کہا کہ ’یہ مسئلہ کسی گھر کا یا شہر کا نہیں بلکہ یہ مسئلہ اب ایک ملک گیر صورتحال اختیار کرچکا ہے، ہمیں بحیثیت قوم اس مسئلے کے لیے نہ صرف عوام میں شعور پیدا کرنا ہے بلکہ اس کے ساتھ کچھ ایسے اقدامات بھی اٹھانے ہیں کہ آئندہ ہمیں ایسے کسی واقعے سے گزرنا نہ پڑے۔

واضح رہے کہ صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کر لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: زینب قتل: 227 افراد سے تفتیش، 64 ڈی این اے ٹیسٹ کا مشاہدہ

5 روز بعد 9 جنوری کو قصور کے شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تھی اور ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم ہوا جس میں یہ بات بھی واضح ہوئی کہ بچی کو قتل سے قبل زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

محمّد اورنگزیب Jan 12, 2018 02:44am
اگر قصور میں بچوں کے ساتھ پہلے پیش آنے والے زیادتی کے واقعات پر عدالتیں کارروائی کرتی تو کمسن بچی زینب کے ساتھ یہ واقعہ پیش نہ آتا – اگر زینب کے رشتےدار بچی کو اکیلا گھر سے باہر نہ جانے دیتے تو یہ واقعہ پیش نہ آتا- اگر ماں باپ اپنی بچی کو مناسب تحفظ فراھم کر کے عمرہ کرنے جاتے تو یہ واقعہ پیش نہ آتا- اگر مذہبی رہنماہ سیاسی رہنماہ نہ بنتے اور درست اسلام پھلاتے اور سیاست کو چھوڑ کر لوگوں کو الله کی طرف لے جاتے تو یہ واقعہ پیش نہ آتا – اگر ڈیرہ اسمعیل خان کی بچی کو عدالتیں سو موٹو کے ذریعے تحفظ فراھم کرتیں انصاف فراہم کر تیں تو یہ واقعہ پیش نہ آتا -