جامعہ پنجاب میں 2 طلبہ گروپوں میں تصادم کے نتیجے میں متعدد طلبہ زخمی ہوگئے جبکہ ایک گروپ نے جامعہ کے الیکٹرکل انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے کمرے کو نذر آتش کردیا۔

تصادم اس وقت شروع ہوا جب ایک طلبہ گروپ کی جانب سے جامعہ میں جاری دوسری طلبہ تنظیم کی جانب سے منعقدہ پروگرام میں دھاوا بولا گیا۔

اس حوالے سے انتظامیہ کا کہنا تھا تصادم کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی ہے، جس کے بعد 10 طلبہ کی نشاندہی کرلی گئی ہے جنہیں جامعہ سے فوری طور پر نکال دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: پنجاب یونیورسٹی: تصادم میں ملوث طلبہ کے خلاف مقدمہ

انتظامیہ کا کہنا تھا تصادم میں ملوث طلبہ گزشتہ سال ثقافتی دن پر ہونے والے تصادم میں بھی ملوث رہ چکے ہیں۔

اس بارے میں وائس چانسلر جامعہ پنجاب زکریا ڈاکٹر ذاکر کا کہنا تھا کہ ہنگامہ آرائی جامعہ پنجاب کو بدنام کرنے کی سازش ہے،واقعے سے متعلق کمیٹی بنا دی ہے جو معاملے کی تحقیقات کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ فیسٹیول کسی مذہبی جماعت کا نہیں بلکہ طلبہ کا تھا اور جامعہ میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ رات تین بجے اس واقعے کی اطلاع ملی تھی اور دونوں گروپوں میں شال افراد باہر سے آئے تھے جبکہ ان میں کچھ شرپسند عناصر بھی شامل تھے۔

وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ جامعہ میں تعلیمی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں، اس طرح کے لڑائی جھگڑے برداشت نہیں کریں گے اور ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔

ڈاکٹر زکریا ذاکر نے کہا کہ جامعہ کی انتظامیہ واقعہ کی ایف آئی آر درج کراکر آئندہ چند گھنٹوں میں ملوث طلبہ کے خلاف کارروائی کرے گی۔

دوسری جانب ایک طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کا کہنا تھا کہ جامعہ پنجاب میں ہر سال کی طرح اس سال بھی پائینیر فیسٹیول منعقد کیا گیا تھا اور اسی فیسٹیول کی تیاریاں جاری تھی کہ پختون اور بلوچ طلبہ کے گروہ نے دھاوا بول دیا۔

تاہم پختون اور بلوچ طلبہ کے گروہ نے دعویٰ کیا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں نے ان پر حملہ کیا۔

خیال رہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ جماعت اسلامی کی ایک ذیلی طلبہ تنظیم ہے جبکہ پختون اور بلوچ طلبہ گروہ وہ افراد ہیں جن کو پنجاب یونیورسٹی دوستی کے باعث مفت تعلیم، رہائش اور ماہانہ وظیفہ دیتی ہے۔

دریں اثناء دو طلبہ تنظیموں میں تصادم کے بعد صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن رضا علی گلانی نے جامعہ پنجاب میں اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت کی، اجلاس میں وائس چانسلر، سی سی پی اور اور ڈینز نے شرکت کی۔

اجلاس میں پنجاب یونیورسٹی کو 2 یا 3 روز تک بند کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا گیا، تاہم اس حوالے سے حتمی فیصلہ وائنس چانسلر کریں گے۔

طلبہ کا دھرنا

جامعہ پنجاب میں تصادم کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ نے وائس چانسلر آفس کے باہر دھرنا دیا اور پختون اور بلوچ طلباء کے گروہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

تاہم پولیس کی جانب سے ان طلباء کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی، جس کے بعد طلباء مزید منتشر ہوگئے۔

ادھر طلباء کے ایک گروپ کی جانب سے جامعہ پنجاب سے باہر کینال روڈ پر احتجاجی دھرنا دیا گیا، جس کے باعث ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہوگئی اور اطراف کی سڑکوں میں ٹریفک جام ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب یونیورسٹی: طلبہ تنظیموں میں تصادم، 5طلبہ زخمی

دھرنا دینے والے طلبہ کا کہنا تھا کہ دوسرے گروپ کے ملوث طلبہ کے خلاف جب تک کارروائی نہیں ہوتی وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔

علاوہ ازیں اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے دوسرے گروپ کے طلبہ کے خلاف پولیس کو درخواست دے دی گئی۔

ایس پی اقبال ٹاؤن عمر فاروق کے مطابق جمعیت کی درخواست پر دیگر گروپ کے طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کیا جارہا ہے اور اس حوالے سے قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

پولیس کو انتہائی اقدام سے روک دیا، وزیر قانون

جامعہ پنجاب میں تصادم کے معاملے پر وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ پولیس کو صورتحال قابو میں کرنے کو کہا ہے لیکن انتہائی اقدام سے روک دیا گیا ہے۔

ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حالات پر امن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جامعہ پنجاب کی انتظامیہ کی ہر ممکن مدد کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہنگامہ کرنے والے طلبہ پر مقدمہ ہوسکتا ہے جامعہ کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ مشتعل طلبہ کے خلاف کارروائی کرے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل جامعہ پنجاب میں کئی مرتبہ طلبہ گروپوں میں تصادم ہوتے رہے ہیں، گزشتہ سال بھی ایک گروپ کے ثقافتی پروگرام کے موقع پر دوسرے گروپ کی جانب سے دھاوا بولا گیا تھا، جس کے نتیجے میں بھی متعدد طلبہ زخمی ہوئے تھے۔

اس حوالے سے انتظامیہ کی جانب سے متعدد مرتبہ ملوث طلبا کے داخلے ختم کرکے ان کے خلاف مقدمات بھی درج کرائے گئے، تاہم اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں