مشرقی لندن میں تبلیغی جماعت کی جانب سے یورپ کی سب سے بڑی مسجد تعمیر کرنے کے منصوبے کو اس وقت ایک اور دھچکا لگا، جب ہائی کورٹ نے اسی مقام پر قائم مسجد الیاس کو منہدم کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل مسترد کردی۔

خیال رہے کہ مسجد کو منہدم کرنے کے فیصلے کو ایک سال تک موخر کرنے کے حوالے سے تبلیغی جماعت کے 3 ٹرسٹیز کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں تبلیغی جماعت کو اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے سے بھی منع کردیا ہے، جس کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ کچھ ہفتوں میں مسجد کا موجودہ انفرااسٹرکچر منہدم کردیا جائے گا۔

تاہم انسانی حقوق کے یورپین ہائی کورٹ کا ایک حکم امتناع مسجد الیاس کو منہدم ہونے سے بچا سکتا ہے اور اس حوالے سے ٹرسٹیز نے رواں ماہ کے دوسرے ہفتے میں درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: تبلیغی جماعت: خاموش تبدیلی کی گونج

خیال رہے کہ 17 ایکڑ پر مشتمل اس زمین پر صدیوں سے ایک کیمیکل فیکٹری تھی لیکن 1995 میں تبلیغی جماعت کے ٹرسٹیز کی جانب سے اسے 16 لاکھ پاؤنڈ میں خریدا گیا تھا۔

دوسری جانب اگر انسانی حقوق کے یورپین ہائی کورٹ کی جانب سے کوئی حکم امتناع جاری نہیں ہوتا اور ٹرسٹیز 6 ماہ میں جگہ خالی نہیں کرتے تو نیو ہیم بورو کونسل کی جانب سے مسجد کو منہدم کرنے کا عمل شروع کیا جائے گا، اس کے علاوہ تبلیغی جماعت یا ان کے ماننے والوں کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت پر (ضروری خریداری آرڈر) سی پی او حاصل کرنے کے لیے قانونی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔

ہائی کورٹ بینچ کے جج ویلڈن اسمتھ نے تبلیغی جماعت کے ٹرسٹیز کو مزید حکم دیا ہے کہ وہ نیوہیم کے لندن بورو کو 4 ہفتوں کے اندر 22 ہزار 207 پاؤنڈ بھی ادا کریں گے اور اگر 23 فروری تک یہ رقم کی ادائیگی نہیں کی گئی تو کونسل کی جانب سے رقم کی وصولی کے لیے کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔

عدالت کے مذکورہ فیصلے کے سامنے آتے ہی دیگر مقامی گروپوں کی جانب سے مقامی انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے کا منصوبہ بھی تیار کرلیا گیا ہے تاکہ موجودہ مسجد کو جلد منہدم کیا جاسکے۔

اس حوالے سے مسجد کی تعمیر کے خلاف مہم چلانے والے مقامی گروپ نیوہیم کنسرن کے مہم ڈائریکٹر الان کریگ نے ڈان کو بتایا کہ ’تبلیغی جماعت کی جانب سے بلا ضرورت تاخیر کی گئی اور منصوبے کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی اور قانون کو توڑا گیا’۔

انہوں نے کہا کہ ان کا منصوبے کو نیوہیم کونسل سے لیکر ہائی کورٹ تک ہر انتظامیہ کی جانب سے مسترد کیا گیا جبکہ ان کی حالیہ درخواست کو بھی عدالت نے مسترد کردیا، لہٰذا اب وقت ہے کہ کونسل بلڈوزر بھیجے اور اس غیر قانونی عارضی مسجد کو منہدم کرکے اس جگہ کو مختلف ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال کرے اور اس سے تمام برادریوں کو فائدہ ہوگا۔

اس کے علاوہ ایک اور مقامی گروپ نے ہفتے کو مسجد کے سامنے عبادت کرنے کا اعلان بھی کیا ہے، اس حوالے سے ایگ گروپ کے ممبر گریسی نول نے جمعہ کو فیصلے پر ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ہفتہ 3 فروری کو نیوہیم لںدن میں مسجد کے سامنے عبادت کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ تبلیغی جماعت نیوہیم کونسل میں قانونی جنگ ہار گئی ہے تبھی انہوں نے انسانی حقوق کے یورپین کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔

ادھر تبلیغی جماعت کی جانب سے اس معاملے میں کوئی بڑی رکاوٹ بننے کا بھی امکان نظر نہیں آرہا کیونکہ تبلیغی جماعت کا ایک گروپ لندن کے امیر کی قیادت میں ہفتہ وار مشورے کے لیے پہلے ہی ٹاور ہیملیٹ کے علاقے میں پرانے لندن مرکز منتقل ہوگیا ہے۔

واضح رہے کہ 19 جنوری کو کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا تھا کہ اس وقت مسجد میں 2500 نمازیوں کی گنجائش ہے اور پارکنگ کے لیے بڑی جگہ موجود ہے جبکہ جعمرات کی رات کو لندن کے مختلف حصوں سے بڑی تعداد میں لوگ علماء کا بیان سننے مسجد میں آتے ہیں اور اس کے بعد وہ تبلیغ کے لیے نکل جاتے ہیں۔

اس موقع پرنیوہیم کے لندن بورو کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس مسجد کو منہدم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جولائی 2017 میں سیکریٹری اسٹیٹ کے فیصلے کے خلاف ٹرسٹیز کی اپیل کو مسترد کردیا گیا تھا اور پارکنگ اور دیگر انفرا اسٹرکچر کو بھی غیر قانوی قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں خواتین کی مسجد کا منصوبہ

عدالت میں سماعت کے دوران ٹرسٹیز کے نمائندے معیز الرحمٰن نے بتایا کہ وہ ترقیاتی گروپ سے رابطے میں ہیں اور اگر معطلی کے فیصلے میں توسیع کرکے انہیں ایک موقع دیا جائے تو گروپ کے ساتھ معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ تبلیغی جماعت ایک مختلف تنظیم ہے، اس کے سارے فیصلے اتفاق رائے اور بڑوں کی مشاورت کے بعد کیے جاتے ہیں۔

تاہم سماعت کے جج نے ٹرسٹیز کی جانب سے پیش کردہ تمام دلائل کو مسترد کردیا اور کہا کہ مسجد کے مقام پر تمام سرگرمیاں غیر قانونی ہے اور انہیں ختم ہونا چاہییے۔

جج نے کہا کہ ٹرسٹیز کی جانب سے 12 مہینے کے معطلی کے وقت میں سے 5 ماہ گزر چکے ہیں جبکہ ٹرسٹیز کی جانب سے پالیسی پر بہت کم کام ہوا ہے، لہٰذا عدالت اس فیصلے کے خلاف اپیل کو مسترد کرتی ہے۔


یہ خبر 30 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں